الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام نے نکاح میں کچھ ارکان اور شروط متعین کی ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے ۔
نکاح کے تین ارکان ہیں :
1. خاوند اوربیوی کا ہونا، کیوں کہ ان کے بغیر نکاح ممکن نہیں ہے، یہ بھی تاکید کرنا ضروری ہے کہ ان دونوں کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہو وہ ایک دوسرے کےمحرم نہ ہوں۔
2. حصول ایجاب : ایجاب کے الفاظ عورت کے ولی یا پھر اس کے قائم مقام کی طرف سے اس طرح ادا ہوں کہ وہ خاوند کو کہے کہ میں تیری شادی فلاں لڑکی سے کرتا ہوں یااس سے ملتے جلتے کوئی الفاظ کہے۔
3. حصول قبول: قبولیت کے الفاظ خاوند یا اس کا قائم مقام ادا کرے گا، مثلا: وہ یہ کہے کہ میں نے قبول کیا یا اسی طرح کے کوئی الفاظ ۔
نکاح کی شروط درج ذیل ہیں:
1. خاوند اور بیوی کا تعین کرنا، یہ تعین نام، اشارے یا اس کی کوئی صفت بیان کرکے کیا جا سکتا ہے۔
2. خاوند اوربیوی کی رضامندی:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ. (صحيح البخاري، النكاح: 5136، صحيح مسلم، النكاح: 1419).
شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کےبغیر نہیں کیا جا سکتا ، کنواری عورت سے بھی نکاح کی اجازت لی جائے گی ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کہنے لگے: اے اللہ کے رسول ! ( کنواری ) کی اجازت کس طرح ہوگی، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔
3. عورت کے لیے ولی کا ہونا بھی شرط ہے۔
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نِكَاحَ إلا بِوَليٍّ. (سنن أبي داود، النكاح:2085، سنن ترمذي، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح).
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
دوسری حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ. (سنن أبي داود، النكاح: 2083، سنن ترمذي، النكاح: 1102) (صحيح).
جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔
4. اسی طرح نکاح کے وقت دو گواہوں کی موجودگی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَشَاهِدَيْ عَدْل. (صحیح الجامع: 7557).
ولی اور دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا۔
نکاح کے وقت اس کےتمام ارکان اور شروط کا پایا جانا ضروری ہے
1. سوال میں مذکور صورت حال میں عورت کا ولی، گواہ موجود ہیں، لڑکے اور لڑکی کی رضامندی بھی ہے، لیکن ایجاب وقبول اور حق مہر نہیں ہے۔ اس لیےاگر ولی یا اس کا کوئی نائب ایجاب کروا دے اور خاوند کی طرف سے قبول ہو جائے اور حق مہر کا تعین ہو جائے، تو نکاح ہو جائے گا۔
2. دونوں خاندانوں کے افراد کو اکٹھا کرکے دعوت کا اہتمام کرنا اچھی بات ہے، لیکن اس کو باقاعدہ رسم بنا کر دعا کا اہتمام کرنا، اور اسے عقد نکاح کے لیے لازمی سمجھنا درست نہیں ہے۔
والله أعلم بالصواب.