سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

لڑکی سے ایجاب وقبول کا حکم

  • 9832
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1612

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی ایک پٹھان خاندان میں ہوئی ہے۔ جب میرے گھر والے ان سے رشتہ مانگنے گئے تھے تو لڑکی کے والد(میرے سُسر) نے اپنی بیٹی یعنی میری بیوی سے پوچھا تھا کہ بیٹی تمھارے لیئے یہ رشتہ آیا ہے تو اس وقت میری بیوی نے صاف انکار کر دیا تھا کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے، لیکن پھر اس کی والدہ (میری ساس) اور میری بہن جو کالج کے وقت کی میری بیوی کی دوست ہے نے اسے سمجھایا تو اس نے سوچا اور جب اطمینان قلب ہو گیا تو اس نے اپنی والدہ (میری ساس) کو ہاں کر دی۔میری ساس نے میرے سسر کو بتایا کہ لڑکی نے ہاں کر دی ہے۔اس کے بعد منگنی ہو گئی۔ منگنی کے ایک سال بعد میرا نکاح ہوا جو مسجد میں منعقد ہوا جس میں میرا بھائی،میرے والد اور لڑکی کی طرف سے اس کا والد بطور ولی موجود تھے۔ایجاب و قبول میں مجھ سے اور لڑکی کے والد سے پوچھا گیا اور ہم نے کہا کہ ہمیں قبول ہے۔میں نے اسی وقت نکاح نامے پر دستخط کر دیئے۔ نکاح کے اگلے روز لڑکی کے والد نے اسے کہا کہ اگر تمہیں یہ نکاح قبول ہے تو دستخط کر دو تو اس نے دستخط کر دیئے(حق مہر پہلے بتا دیا تھا لیکن دستخط کرانے سے پہلے یہ نہیں بتایا کہ نکاح کس کے ساتھ ہے)۔اس وقت بطور گواہ اس کی والدہ اور 3 بہنیں موجود تھیں۔کیا یہ نکاح صحیح ہے جس میں لڑکی سے بوقت نکاح اجازت نہیں لی گئی صرف ایک سال پہلے منگنی کی اجازت کو ہی کافی سمجھا گیا (پٹھانوں کے رواج کے مطابق) اور نہ ہی کسی مرد گواہ کے سامنے پوچھا گیا۔اگر تجدید کی ضرورت ہے تو اس کا کیا طریقہ ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں آپ کا نکاح درست ہے کیونکہ جب لڑکی کے ولی اور آپ نے مسجد میں ایجاب وقبول کر لیا تو نکاح کے منعقد ہونے کے لئے یہی کافی ہے ،لڑکی سے الگ سے ایجاب وقبول کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے ،اور لڑکی کے والد کا ایجاب اور آپ کا قبول کر ناہی کافی ہے۔دوبارہ لڑکی سے قبول کرانا غیر ضروری امر تھا ،جس کی قطعا کوئی ضرورت نہ تھی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ