سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سود، قرض اور بینکوں میں ملازمت کے چند مسائل

  • 9347
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1905

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پیپر کرنسی کے بارے میں فقہی کونسل کی قرارداد


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی فقہی کونسل نے اس تحقیقی مقالہ پر غور کیا جو اس کے سامنے پیپر کرنسی اور اس کے شرعی احکام کے موضوع پر پیش کیا گیا۔ کونسل کے ارکان نے مباحثہ اور خصوصی غوروفکر کے بعد یہ طے کیا کہ:

اولا: اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ نقدی میں اصل بنیاد تو سونا چاندی ہے اور فقہاء شریعت کے صحیح ترین قول کے مطابق ان میں سود جاری ہونے کی علت مطلق ثمنیت ہے لیکن فقہاء کے نزدیک ثمنیت محض سونے اور چاندی ہی پر منحصر نہیں ہے، اگرچہ اصل بنیاد اسی معدن پر ہے اور اب چونکہ پیپر کرنسی بھی ثمن (قیمت) بن گئی ہے اور معاملہ میں سونے چاندی کی قائم مقام ہے کہ عصر حاضر میں کاروبار اسی کے مطابق ہو رہا ہے اور سونے چاندی کے ساتھ کاروبار پس منظر میں چلا گیا ہے اور اب لوگ سونا چاندی لینے کی بجائے اسی کو مال سمجھنے اور جمع کرنے پر مطمئن ہیں اور عموما لین دین اسیکے مطابق ہو رہا ہے حالانکہ اس کی قیمت بذات خود کرنسی میں نہیں ہے بلکہ ایک خارجی امر میں ہے اور وہ یہ کہ لین دین کے لیے ایک واسطے کے طور پر اعتماد کر لیا گیا ہے اور یہی ثمنیت کے ساتھ ا س کے تعلق کا راز ہے۔

تحقیق یہ ہے کہ سونے چاندی میں ربا کے پائے جانے کی علت مطلق ثمنیت ہے اور یہ بات پیپر کرنسی میں بھی ہے۔ لہذا اسلامی فقہی کونسل یہ قرار دیتی ہے کہ پیپر کرنسی بھی قائم بالذات ہے اور اس کا حکم بھی وہی ہے جو نقدین یعنی سونے اور چاندی کا ہے۔ لہذا اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی، اس میں بھی سود کی دونوں قسمیں (رباالفضل اور ربا النسیئہ) جاری ہوں گی، جیسا کہ یہ نقدین یعنی سونے چاندی میں جاری ہیں کیونکہ ثمنیت کے اعتبار سے پیپر کرنسی کا بھی سونے چاندی ہی پر قیاس ہے لہذا پیپر کرنسی کے لیے بھی نقود کے وہ تمام احکام ہوں گے جن کو شیریعت نے نقود کے لیے لازم قرار دیا ہے۔

ثانیا: پیپر کرنسی میں بھی نقدیت کو اسی طرح قائم بالذات شمار کیا جائے گا جس طرح کہ سونے، چاندی اور دیگر اثمان میں نقدیت قائم بالذات ہے۔ اسی طرح پیپر کرنسی کو مختلف اجناس میں شمار کیا جائے گا جو مختلف ممالک سے جاری ہونے کی وجہ سے مختلف ہوں گی یعنی سعودی عرب کی پیپر کرنسی ایک جنس ہے، امریکہ کی پیپر کرنسی ایک دوسری جنس ہے، الغرض اسی طرح ہر پیپر کرنسی ایک مستقل جنس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں بھی سود کی دونوں قسمیں فضل اور نسیئہ اسی طرح جاری ہوں گی، جس طرح وہ سونے چاندی اور دیگر اثمان میں جاری ہوتی ہیں۔ اس ساری تفصیل کا تقاضا یہ ہے کہ:

(الف) پیپر کرنسی کی آپس میں یا دیگر نقدی اجناس مثلا سونا چاندی وغیرہ کے ساتھ مطلقا ادھار بیع جائز نہیں ہے۔ مثلا سعودی ریال کی کسی دوسری کرنسی سے اضافہ کے تقابض کے بغیر ادھار بیع جائز نہ ہو گی۔

(ب) ایک ہی قسم کی پیپر کرنسی کی آپس میں اضافہ کے ساتھ بیع جائز نہ ہو گی خواہ یہ بیع ادھار ہو، یا دست بدست مثلا دس سعودی ریال کی بیع گیارہ سعودی ریال کے ساتھ نقد یا ادھار جائز نہیں۔

(ج) ایک کرنسی کی دوسری قسم کی کرنسی کے ساتھ بیع مطلقا جائز ہے جب کہ دست بدست ہو مثلا سوریا یا لبنان کے لیرا کی سعودی ریال کے ساتھ خواہ وہ کاغذ کا ہو یا چاندی کا، بیع کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے اسی طرح ایک امریکی ڈالر کی مثلا تین سعودی ریل یا اس سے کم یا زیادہ کے ساتھ بیع جائز ہے بشرطیکہ دست بدست ہو، اسی طرح چاندی کے ایک سعودی ریال کی کاغذ کے تین یا اس سے کم یا زیادہ سعودی ریال کے ساتھ بھی بیع جائز ہے جب کہ سودا نقد ہو کیونکہ اس صورت میں بیع غیر جنس کے ساتھ ہو گی، لہذا محض نام میں اشتراک کا کوئی اثر نہیں ہو گا جب کہ دونوں کی حقیقت مختلف ہے۔

ثالثا: پیپر کرنسی میں بھی زکوٰۃ واجب ہے جب کہ اس کی قیمت سونے یا چاندی میں سے جس کا نصاب کم ہو، اس کے بقدر ہو یا دیگر اثمان اور سامان تجارت کے ساتھ مل کر نصاب مکمل ہو جاتا ہو۔

رابعا: بیع سلم اور کمپنیوں وغیرہ کی شراکت میں پیپر کرنسی کو راس المال قرار دینا جائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ