سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قسطوں پر ادھار بیع

  • 9252
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1222

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نقد کی بجائے اگر ادھار اور قسطوں کی صورت میں ہونے کی وجہ سے قیمت زیادہ ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مدت معلوم تک بیع جائز ہے بشرطیکہ وہ معتبر شرائط پر مشتمل ہو، اسی طرح قیمت بالاقساط ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ...٢٨٢... سورة البقرة

"مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(من اسلف في شئيء فلسلف في كيل معلوم ووزن معلوم الي اجل معلوم) (صحيح البخاري‘ السلم‘ باب السلم في وزن معلوم‘ ح: 2240 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب السلم‘ ح: 1604)

"جو شخص کسی چیز کی ادھار بیع کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ معلوم ناپ، معلوم وزن اور معلوم مدت کے لیے بیع کرے۔"

اسی طرح "صحیحین" میں موجود بریرہ کے قصہ[1] سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے مالک سے اپنے آپ کو نواوقیہ پر اس شرط پر خریدا کہ وہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرے گی اور یہ قسطوں ہی کی بیع ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، بلکہ اسے برقرار رہنے دیا اور اس اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں، ادھار ادا کی جانے والی قیمت نقد قیمت کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے اس سے زیادہ ہو۔


[1] صحیح بخاری، المکاتب، باب استعانة المکاتب...الخ، حدیث: 2563 وصحیح مسلم، العتق، حدیث: 1504

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ