سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) گنہگار مؤمن پر عذاب میں تخفیف

  • 922
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1317

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا گناہ گار مومن پر عذاب قبر میں تخفیف کر دی جاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ہاں! مردمؤمن پر عذاب قبر میں تخفیف کا معاملہ کیا جاتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دو قبروں کے پاس سے گزرے تھے، تو اس موقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

«إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِی کَبِير بلی انه کبيرِ،ٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتبری أوقال لا يستترُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِی بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَة وقال(لعله يخفف عنهما مالم يبسا»صحیح البخاری، الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبة والبول، ح:۱۳۷۸ وصحیح مسلم، الطهارة باب الدلیل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء، ح:۲۹۲)

’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کوکسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے، پھر فرمایا: کیوں نہیں، بلاشبہ یہ عظیم گناہ ہے ان میں ایک پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں برتتا تھا راوی کو شک ہے یا پیشاب کرتے وقت  سترعورت کا خیال نہیں رکھتا تھا اور ان میں سے دوسرا شخص چغل خوری کرتا پھرتا تھاپھر آپ نے ایک تازہ شاخ پکڑی اور توڑ کر اس کے دو حصے کر دیے اور ان میں سے ہر ایک کو دونوں کی قبروں پر گاڑ دیا اور فرمایا: شاید ان سے اس وقت تک عذاب میں تخفیف کر دی جائے جب تک یہ دونوں شاخیں خشک نہ ہوں۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان دوشاخوں کا عذاب دیے جانے والے ان دو شخصوں کے عذاب میں تخفیف سے کیا تعلق ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے کہ دونوں شاخیں اس وقت تک جبتک خشک نہ ہوں اللہ کی تسبیح بیان کرتی رہیں گی اور تسبیح میت کے عذاب میں تخفیف کا سبب ہے، پھر اس علت سے لوگوں نے یہ فرع بھی نکالی ہے جس کا دور تک کوئی سراغ نہیں ملتاہیکہ انسان کے لیے یہ مسنون ہے کہ وہ قبرستان میں جا کر تسبیح پڑھے تاکہ مردوں کے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ سبب ضعیف ہے کیونکہ شاخوں کو تو تسبیح بیان کرنا ہی کرنا تھی، خواہ یہ تر ہوں یا خشک، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمـوتُ السَّبعُ وَالأَرضُ وَمَن فيهِنَّ وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا يُسَبِّحُ بِحَمدِهِ وَلـكِن لا تَفقَهونَ تَسبيحَهُم...﴿٤٤﴾... سورة الإسراء

’’ساتوں آسمان اور زمین اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور جو (مخلوق) ان میں ہے اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آمنے سامنے کنکریوں کی تسبیح سنی گئی ہے حالانکہ کنکریاں خشک ہوتی ہیں، تو سوال یہ ہے کہ پھر شاخوں کے گاڑنے کا سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے یہ امید کی اور آس لگائی کہ وہ ان دو شاخوں کے خشک ہونے تک ان سے عذاب میں تخفیف کر دے  یعنی یہ مدت کوئی زیادہ طویل نہیں ہے آپ نے محض ان دونوں کے فعلوں سے ڈرانے کے لیے ایسا کیا کیونکہ ان دونوں کے فعل بہت برے فعل تھے(یا گناہ عظیم کے قبیل سے تھے) جیسا کہ روایت میں آیا ہے: ’’ہاں! یہ بڑا گناہ ہے۔‘‘ کہ ان میں سے ایک شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور جب وہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا توگویا طہارت کے بغیر نماز پڑھتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا تھا اور بندگان الٰہی کے درمیان فساد ڈالتا تھا۔ والعیاذ باللہ

بایں طور وہ ان میں عداوت اور بغض پیدا کرتا تھا، تو یہ بہت ہی بھیانک قسم کی برا ئی والا عمل ہے، اس بنیاد پر یہاںزیادہ مناسب یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک وقتی شفاعت تھی اور مقصود امت کو ان برے کاموں کے انجام سے ڈرانا تھا، یہ بات نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں دائمی شفاعت میں بخل سے کام لیا۔

بعض علماء نے، اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ جو یہ کہا ہے کہ مسنون ہے کہ انسان قبر پر کوئی تر شاخ یا درخت وغیرہ لگا دیاکرے تاکہ صاحب قبر کے عذاب میں تخفیف ہو جایاکرے تو یہ استنباط بہت بعیدازقیاس ہے اور حسب ذیل اسباب کے باعث یہ ایسا کرنا جائز نہیں :

٭           ہمارے سامنے یہ بات منکشف نہیں ہوتی کہ اس شخص کو عذاب ہو رہا ہے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں کے عذاب کے بارے میں معلوم ہوگیا تھا۔

٭           ہم اگر ایسا کریں تو میت سے برا سلوک کرنے کے مرتکب قرارپائیں گے کیونکہ اس صورت میںہم نے گوایاکہ میت کے بارے میں پیشگی سوئِ ظن قائم کر لیا کہ اسے عذاب ہو رہا ہے۔ جبکہ ہمیں کیا معلوم شاید وہ جنت کی نعمتوں سے شاد کام ہو رہا ہو؟۔ ہو سکتا ہے کہ مغفرت کے کثیر اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی موت سے پہلے ہی اس کی مغفرت فرما دی ہو اور جب وہ فوت ہوا ہو تو معاف کیا جا چکا ہو اور وہ سرے سے مستحق عذاب ہی نہ ہو۔

٭           یہ استنباط ان سلف صالحین کے مذہب کے بھی خلاف ہے جو لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو جاننے والے تھے، یعنی جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا تو ہم اسے کیوں کریں؟

٭           اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر بات کی طرف ہماری راہنمائی فرما دی ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو آپ وہاں کھڑے ہوتے اور ارشاد فرماتے:

«اِسْتَغْفِرُوْا لاَخِيْکُمْ وَاسْأَلُوا لَهُ التَّثْبِيْتِ فَاِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ»(سنن ابي داؤد، الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف، ح: ۳۲۲۱)

’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرو، کیونکہ اس سے اب سوال کیا جا رہا ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ108

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ