سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جو ایک ہی دفعہ تمام جمروں کو رمی کر لے

  • 9166
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 829

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنے والدکے ساتھ فریضہ حج اس وقت ادا کیا جب میری عمر سترہ برس تھی اور مجھے حج کے احکام و مسائل کے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ میں اپنے والد کے ساتھ جب رمی جمرات کے لیے گئی تو میرے والد نے کنکریوں کو لے کر تمام کو یکبارگی ہی پھینك دیا تو کیا میرا حج صحیح ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آپ کے والد نے تمام جمرات کو یکبار رمی کر دیا ہے، تو آپ پر دم لازم ہے اور وہ ہے اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک عدد بھیڑ یا بکری ہے۔ اس کو مکہ میں ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کر دیا جائے کیونکہ رمی جمرات حج کے واجبات میں سے ہے اور واجب یہ ہے کہ ساتوں کنکریوں کو ایک ایک کر کے پھینکا جائے۔ اگر کوئی حاجی تمام کنکریوں کو یکبار مار دے تو یہ ایسے ہو گا جیسے اس نے ایک ہی کنکری ماری ہو۔ اس مذکورہ صورت میں آپ کا حج صحیح ہے، اس کا اعادہ لازم نہیں ہے، ہاں البتہ اس میں جو نقص رہ گیا ہے اسے بیان کردہ مذکورہ دم کے ساتھ پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے لیے دوبارہ حج کرنا ممکن ہو تو وہ حج نفل ہو گا۔ بہر آئینہ حج فرض ہو یا نفل، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو یہ فضل عظیم اور اجر کبیر کا حامل عمل ہے، بشرطیکہ اسے حکم شریعت کے مطابق ادا کیا جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الحج المبرور ليس له جزاء الا الجنة) (صحيح البخاري‘ العمرة‘ باب وجوب العمرة و فضلها‘ ح: 1773 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل الحج والعمرة‘ ح: 1349)

"حض مبرور کی جزا جنت ہی ہے۔"

جو شخص رمی کرنے سے عاجز ہو مثلا مریض یا بوڑھا یا وہ عورت جو جمرہ تک نہ پہنچ سکتی ہو یا اس طرح کے دیگر لوگ تو ان کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ رمی جمار کے لیے کسی کو اپنا وکیل بنا لیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...١٦... سورة التغابن

"سو جہاں تک ہو سکے اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔"

تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر یہ واجب ہے کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور ان احکام کو سیکھیں جو ان پر نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج وغیرہ کے سلسلہ میں واجب قرار دئیے گئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور احکام کی معرفت کا اس کے بغیر اور کوئی طریقہ نہیں کہ انسان دین کا علم سیکھے اور اس میں فقاہت حاصل کرے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين) (صحيح البخاري‘ العلم‘ باب من يرد الله به خيرا...الخ‘ ح: 71 وصحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب النهي عن المسالة‘ ح: 1037)

"جس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ خیر و بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔"

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

(من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا الي الجنة) (جامع الترمذي‘ العلم‘ باب فضل طلب العلم‘ ح: 2646)

"جو شخص علم حاصلہ کرنے کے لیے کسی راستہ پر چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی وجہ سے جنت کے راستے کو آسان بنا دیتا ہے۔"

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو علم نافع حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ