سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تمام جمروں کو ایک ہی دن میں رمی کرنا

  • 9165
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 770

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حاجی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایام تشریق کے تمام جمروں کو ایک ہی دن میں رمی کر دے، خواہ وہ ایام تشریق میں سے پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا اور منیٰ میں دو یا تین دن بسر کرے اور رمی نہ کرے تو کیا اس طرح ایک ہی دن رمی کرنا صحیح ہے یا یہ ضروری ہے کہ رمی میں ایام کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے، امیدہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمی جمار حج کے واجبات میں سے ہے اور غیر متعجل کے لیے عید کے دن اور ایام تشریق میں رمی کرنا واجب ہے۔ اور متعجل کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دو دنوں میں رمی کرے اور ہر روز زوال کے بعد رمی کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور حج کے سلسلہ میں آپ کا مشہور ارشاد گرامی ہے:

(خذوا عني مناسككم) (صحيح مسلم ‘ الحج‘ باب استحباب رمي جمرة العقبة...الخ‘ ح: 1297 والسنن الكبري للبيهقي: 5/125واللفظ له)

"حج کے احکام و اعمال مجھ سے سیکھو۔"

لہذا قبل از وقت رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ شدید ضرورت مثلا بہت زیادہ بھیڑ وغیرہ کی صورت میں اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک اسے مؤخر کرنا جائز ہے۔ ان اہل علم نے یہ بات ان چرواہوں وغیرہ پر قیاس کرتے ہوئے فرمائی ہے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت عطا فرمائی تھی کہ وہ دو دنوں کی رمی دوسرے دن یعنی بارہ تاریخ کو کر لیں[1] اور ترتیب کے لیے نیت کر لیں۔ رمی کے لیے پہلا دن عید کا ہے اور پھر ایام تشریق کا پہلا دوسرا اور پھر تیسرا دن ہے، بشرطیکہ عجلت کا مسئلہ درپیش نہ ہو اور پھر طواف وداع رمی کے بعد ہوتا ہے۔


[1] سنن ابی داود، المناسک، باب فی رمی الجمار، حدیث: 1975 و جامع ترمذی، حدیث: 954 وسنن نسائی، حدیث: 3070 وسنن ابن ماجہ، حدیث: 3036

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ