سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) قبر پر مسجد اور عمارت یا مسجد میں قبر بنانا حرام ہے

  • 902
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1592

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں کے ان پجاریوں کو ہم کیا جواب دیں جو مسجد نبوی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن ہونے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس کے کئی جواب دیے جا سکتے ہیں:

٭           مسجد نبوی قبر پر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ مسجد تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تعمیر کی گئی تھی۔

٭           نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن نہیں کیا گیا تھا بلکہ آپ کو آپ کے گھر میں دفن کیا گیا تھا، لہٰذا اسے نیک لوگوں کو مسجد میں دفن کیے جانے کے لیے دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

٭           نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو، جن میں حضرت عائشہc کا گھر بھی تھا، مسجد میں داخل کرنا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے اتفاق سے نہیں تھا بلکہ یہ تو اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے رخصت ہو جانے کے بعد تقریباً ۹۴ھ میں ہوا تھا، اس کی صحابہ نے متفقہ طورپراجازت نہیں دی تھی بلکہ بعض نے حجرئہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مسجد میں ضم کرنے کی مخالفت کی بھی کی تھی۔ مخالفت کرنے والوں میں جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب  رحمہ اللہ بھی تھے۔

٭           قبر کا شمار مسجد میں نہیں ہے حتیٰ کہ حجرے کو مسجد میں داخل کرنے کے بعد بھی وہ مسجد میں داخل نہیں ہے کیونکہ قبر شریف تو مسجد سے الگ ایک مستقل حجرے میں ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں مسجد قبر پر نہیں بنائی گئی تھی۔ اسی وجہ سے اس جگہ کو تین دیواروں کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا تھا، جو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور دیوار کو ایسا زاویہ دے دیا گیا ہے، جس نے اسے قبلہ سے الگ کر دیا ہے، یعنی یہ مثلث شکل میں ہے اور اس کا ایک کنارہ شمالی زاویے میں ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے انسان کا منہ اس کی طرف نہیں ہوتا کیونکہ یہ قبلہ رخ سے ہٹا ہوا ہے، لہٰذا اہل قبور کا اس شبہ سے استدلال باطل ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ156

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ