سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(213) اجتہاد وافتاء

  • 8507
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1884

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اسلا می احکا م  کے با ر ے میں   اجتہا د کا  دروازہ ہر انسا ن کےلئے کھلا ہے  یا مجتہد  کے لئے  کچھ شر ائط  ضروری ہیں ؟ کیا واضح دلیل کی معر فت  کے بغیر محض اپنی رائے   سے فتوی  دینا  ہر انسان  کے لئے  جا ئز  ہے ؟  اور اس حدیث کا کیا درجہ ہے جس کے الفا ظ مفہوم یہ  ہے کہ:

اجروكم علي الفتيا اجروكم علي النار(سنن دارمي)

تم  میں سے جو فتوی کے با ر ے زیادہ  جرات سے کا م لیتا ہے  وہ جہنم کی آگ کے با ر ے میں  بھی زیا دہ دلیر ہے ؟"


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احکا م شریعت کی  معرفت کے با رے  میں  اجتہا د کا دروازہ   ہر اس شخص کے لئے کھلا  ہے  جو اس کا اہل ہو با یں  طور  کہ  جس مسئلہ میں وہ اجتہاد کر  رہا ہو   اس کے با ر ے میں اسے آیا ت احا دیث کا علم ہو ان کے فہم  اور ان کے مطلوبہ  استدلا ل کی اسے قدرت حا صل ہو  جناحا دیث سے استدلال کر  رہا ہو  صحت و ضعف  کے اعتبار سے ان  کے درجے کا علم ہو زیر بحث مسا ئل میں  اجماع کے مقا ما ت کا علم ہو تا  کہ وہ مسلما نوں کے اجماع کے خلا ف  مو قف اختیا ر نہ کر سکے  عربی  زبا ن کی بھی اتنی پہچا ن ضرور ہو  جس سے اس کے لئے نصوص  کے مفہو م کا سمجھنا  ممکن ہو تا  کہ وہ استلال اور استنبا ط  کر سکے  کسی بھی انسا ن کے لئے یہ جا ئز نہیں  کہ وہ دین کے با ر ے اپنی رائے سے کو ئی با ت کر ے   یا لو گوں کو علم کے بغیر فتوی دے  بلکہ اس کے لئے ضروری ہے  کہ شرعی دلیل سے  راہنما ئی حا صل کر ے پھر اہل علم کے اقوال سے  استفا دہ کر ے  اور دیکھے کہ ان کے سامنے  کو ن سے دلا ئل ہیں  اور ان کے استنبا ط واستدلال  کا کیا طریقہ ہے پھر  جس  پر اسے قنا عت حاصل ہو جا ئے وہ جیسے  وہ بطور دین  کے اپنے  لئے  پسند  کر لے اس کے مطا بق گفتگو بھی کر سکتا ہے اور فتوی بھی دے سکتا ہے:

اجروكم علي الفتيا اجروكم علي النار(سنن دارمي)

کو حا فظ عبداللہ  بن عبدالرحمن  دارمی نے  اپنی سنن  میں  عبید اللہ بن ابی جعفر  مصری سے مرسلا روایت کیا ہے

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ