سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63) مصیبت کی حالت میں لوگوں کے مختلف مراتب

  • 842
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1405

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی مصیبت کے نازل ہونے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مصیبت کی حالت میں لوگ چار مراتب پر ہوتے ہیں:

پہلا مرتبہ: ناراضگی کا ہے اور اس کی حسب ذیل اقسام ہیں:

٭     انسان دل سے ناراضی کا اظہار کرے، یعنی اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہوجائے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں جو لکھ رکھا ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے رب تعالیٰ پر غصے کا اظہار کرے ، تو یہ حرام ہے اور بسا اوقات یہ ناراضگی کفر تک بھی پہنچا دیتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَعبُدُ اللَّهَ عَلى حَرفٍ فَإِن أَصابَهُ خَيرٌ اطمَأَنَّ بِهِ وَإِن أَصابَتهُ فِتنَةٌ انقَلَبَ عَلى وَجهِهِ خَسِرَ الدُّنيا وَالءاخِرَةَ...﴿١١﴾... سورة الحج

’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے کہ وہ کنارے (شک) پر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر کوئی آفت آپڑے تو منہ کے بل لوٹ جاتا ہے (کفرکا ارتکاب کربیٹھتا ہے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی تو نقصان صریح ہے۔‘‘

*             ناراضگی کا اظہار زبان سے ہو اور بلاوجہ زبان سے تباہی و بربادی کو پکارنے لگے یہ اور اس طرح کی چیزیں اختیار کرے، تو یہ بھی حرام اور شرعا ممنوع ہیں۔

*             ناراضی کا اظہار اعضا سے کرے، مثلاً: یہ کہ رخساروں پر طمانچے مارے، گریبان پھاڑے اور بال نوچے۔ یہ تمام کام بھی حرام اور واجب صبر کے منافی ہیں۔

دوسرا مرتبہ:

 صبر ہے جیسا کہ شاعر نے کہا:

الصَّبْرُ مِثْلُ اسْمِهِ مُرٌّ مَذَاقَتُهُ

لٰکِنْ عَوَاقِبُهُ اَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ

’’اگرچہ صبر کا ذائقہ اپنے نام کی طرح کڑوا ہے لیکن اس کے نتائج شہد سے بھی زیادہ شریں ہیں۔‘‘

 مرادیہ ہے کہ انسان دیکھتا ہے کہ یہ چیز اس کے لیے بہت ثقیل ہیں مگر وہ اسے برداشت کر لیتا ہے۔ گو وہ اس کے وقوع پذیر ہونے کو پسند نہیں کرتا، لیکن اس کا ایمان ناراض ہونے سے اسے بچا لیتا ہے۔ مصیبت کا وقوع اور عدم اس کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ صبر کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿وَاصبِروا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـبِرينَ ﴿٤٦﴾... سورة الأنفال

’’اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔‘‘

تیسرا مرتبہ:

رضا کا ہے کہ انسان مصیبت پر راضی برضا ہو جائے حتیٰ کہ اس کے نزدیک مصیبت کا وجود اور عدم برابر محسوس ہونے لگے۔ مصیبت کا وجود اس پر گراں گزرے نہ وہ اس کے لیے بھاری بوجھ بنے بلکہ اس کا ایمان ناراضگی میں مبتلاہونے سے اس کے لئے آڑ بن جائے۔ یہ بات مستحب ہے اور راجح قول کے مطابق یہ واجب نہیں ہے۔ اس مرتبے اور اس سے پہلے مرتبے میں فرق ظاہر ہے کیونکہ اس کے نزدیک مصیبت کا وجود اور عدم رضا کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں لیکن ایسا کرنا اس کے لئے واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس موقعہ سے صبرکرنے کاحکم دیا ہے(واصبرواان اللہ مع الصابرین) [۱سوال اور صبر کرو اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

چوتھا مرتبہ:

 شکر کا ہے، جو تمام مراتب سے اعلیٰ ترین مرتبہ ہے، یعنی انسان مصیبت کے پہنچنے پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ اور اس کی نیکیوں میں اضافے کا موجب ہوگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«مَا مِنٍْ مُصِيْبَةٍ تُصِيْبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا کَفَّرَ اللّٰهُ بِهَا عَنْهُ حَتَّی الشَّوْکَةِ يُشَاکُهَا»(صحیح البخاری، المرض، باب ماجاء فی کفارة المرض… ح: ۵۶۴۰ وصحیح مسلم، البروالصلة، باب ثواب المومن فیما یصیبه من مرض، ح:۲۵۷۲)

’’مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے حتیٰ کہ اسے چبھنے والے کانٹے کو بھی اللہ تعالیٰ(اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے)۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ33

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ