سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) بنکوں کی ملازمت کا حکم

  • 7876
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1746

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا چچا زاد بھائی بنک الجزیرہ میں ملازم ہے۔ کیا اس کے لیے یہ ملازمت جائز ہے یا نہیں؟ ہمیں فتویٰ دیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر جزا دے… میں نے اپنے بھائیوں سے سنا ہے کہ بنک کی ملازمت جائز نہیں۔‘‘(عمری ۔ع۔ ا۔ جدہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی کاروبار کرنے والے بنکوں میں ملازمت کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ کام گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون ہوتا ہے، جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo﴾ (المائدۃ: ۲)

’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘

اور یہ تو معلوم ہے کہ سود بہت بڑے بڑے گناہوں میں سے ے۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے تعاون جائز نہیں… نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں سب پر لعنت فرمائی ہے۔ نیز فرمایا کہ یہ سب لو گ اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 144

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ