سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(150) بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں میں قیمت زیادہ ہو تو

  • 7872
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1102

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (احمد۔م۔ا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم مدت والی بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں۔ اسی طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْْنَ اٰمَنُوْْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْْہُ﴾ (البقرۃ: ۲۸۲)

’’اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے ادھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ أَسْلَفَ فِی شَیْئٍ فَفِی کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مَعْلُوم))

’’جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کر کے کرے۔‘‘

اور بریرہ رضی اللہ عنہا سے متعلق جو صحیحین میں ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے مالکوں سے نو اوقیہ میں خرید لیا کہ ہر سال ایک اوقیہ (چاندی) ادا کی جائے گی اور یہی قسطوں والی بیع ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع کو معیوب نہیں سمجھا بلکہ خاموش رہے اور اس سے منع نہیں کیا اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے زیادہ ہو… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 142

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ