سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(541) وقف کا مصرف

  • 7168
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1314

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگرکوئی مسلمان کسی مسلمان کا کوئی چیز مثلا باغیچہ ۔ باڑی۔ مکان وغیرہ وقف کردے۔ اور وہ اس کو کئی سال اپنے قبضہ میں رکھ کر اس سے فائدہ اٹھائے ۔  تو ازروئے شریعت وہ چیز کس کی ملکیت ہوئی۔ اور جس کو وہ چیز دی گئی ہے۔ اس سے واپس لینا ازروئے شریعت کیا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وقف شدہ چیز واقف واپس نہیں لے سکتا۔ جو اس سے فوائد حاصل ہوں ان کا بھی واقف حقدار نہیں۔ ان کو اسی مصر ف میں خرچ کرے۔ جس کے لئے وہ چیز وقف کی گئی ہے۔ قال اللہ تعالیٰ۔ اوفو ا بالعقود ۔  (اہلحدیث امرتسر 5/12 زی الحجہ 1357 ہجری)

اضافہ مفید

سوال۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے مسماۃ ہندہ ا ہلیہ سابقہ کو کہ جس کے عقد کو عرصہ چھتیس سال کا ہوا۔ اور اس سے ایک بیٹا بیٹی اور پوتا پوتی ونواسہ وغیرہ پیدا ہوئے ہیں۔ اور اب زید نےمسماۃ ہندہ اہلیہ سابقہ کے پاس دوسرے مکان میں آنا جانا اور خدمت لینا اور حق شب داری وغیرہ۔  واسطے لگانے الزام عدم اطاعت ونافرمانی کے ترک کیا۔ اور اس مدت دراز زمانہ موافقت  میں  (یعنی چھتیس سال میں)  جو کچھ زید نے تھوڑی یا بہت جائداد منقولہ یا غیر منقولہ اپنی رضا مندی سے  اہلیہ سابقہ اپنی کوہبہ کر کے دے دی۔ اور قابض کردیا۔ اب بوجہ طمع نفسانی یا کسی کے اغوائش  یا اہلیہ سابقہ کولگا کر واپس لینا چاہتا ہے۔ حالانکہ اہلیہ سابقہ کو اطاعت وفرمانبرداری میں بموجب حکم شرع کے زید شوہر  اپنے سے بالکل انکار نہیں۔ پس ایسی حالت واقعہ میں زید کا جائداد  موہوب کواہلیہ سابقہ سے واپس لینا شرعا جائز ہے  یا نہیں۔ بینوا توجروا

الجواب۔ درصورت کہ زید اپنی جائداد منقولہ یا غیر منقولہ برضا ورغبت اپنی زوجہ اولیٰ کو ہبہ کردی۔ اور قابض بھی کردیا۔ تو بلاشبہ جائداد ہو بہو بہ ملک زوجہ اولیٰ کی ہوگئی اب  زید کو جائداد موہوبہ کو واپس لینا شرعا جائز نہیں۔

عن ابن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم العائد في هبة كالكلب يقي ثم يعود في قئيه  (متفق علیہ)

عالم گیریہ میں ہے۔

اذا وهب احد الزوجين لصاحبه لايرجع في الهبة وان انقطع النكاح بينهما انتهي

واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ السید عبد لسلام عفی عنہ 17 محرم 1317 ہجری۔ سید محمد نزیر حسین)

ھوالموفق ۔

فی الواقعہ صورت مسئولہ میں زید کو ہرگز جائز نہیں ہے۔ کہ جائداد موہوبہ کو اپنی زوجہ اولیٰ سے واپس لیوے بلوغ المرام میں ہے۔

عن ابن عم وعن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال لا يحل  لرجل ان يعطي العطية ثم يرجع فيها لا الوالد فيما يعطي ولده رواه احمد ولاربعه وصححه الترمذي وابن حبان والحاكم  قال في سبل السلام قوله لا يحل ظاهر  في التحريم والقول بانه مجاز عن الكراهة الشديد ه صرف له عن ظاهره وقوله الا الوالد دليل علي انه يجوز للاب الرجوع فيما وهبه لا بنه كبيرا كان او صغيرا و خصة الهدية بالطفل وهو خلاف ظاهرا لااحاديث انتهي

وقال فيه تحت حديث العائد في هبة كالكلب الخ

فيه دلالة علي تحريم الرجوع في الهبة وهو مذهب جماهيرا العلماء وبوب البخاري باب لا يحل لا حد ان يرجع هبة وصدقة الخ

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 498

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ