سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) عورتوں کو پردہ کہاں تک کرنا چاہیے۔

  • 6701
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5665

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں کو پردہ کہاں تک کرنا چاہیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتوں کو پردہ اتنا ہی کرنا چاہیے جتنا قرآن مجید میں حکم ہواہے۔  وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ۔ ) خمار سر کی اوڑھنی کو کہتے ہیں۔ اس کی بابت ارشاد ہے کہ 'عورتیں اپنی اوڑھنی غیرمردوں کے سامنے منہ پر ڈال کیا کریں۔ (اہلحدیث 23  جنوری 1921ء)

تشریح

(از حضرت العلام مولانا عبد السلام صاحب بستوی)

زینت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فطری یعنی پیدائشی جیسے چہرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہی اصل زینت ومجمع النور والحسن ہے۔ اس میں مقنا طیسی جاذبیت مضمر ہے۔ دوسرے تصنعی یعنی بناوٹی زینت جیسے اچھے اچھے کپڑے پہننا سرمہ۔ مسی۔ مہندی۔ لگانا اور  زلفوں کو سنوارنا ان دونوں میں سے اس جگہ پہلی زینت مراد ہے۔ تو لایبدین زینتھن کے یہ معنی ہوں گے۔  وہ عورتیں اپنی زینتوں (چہروں) کوظاہر نہ کریں۔ یعنی ان مخصوص لوگوں کے علاوہ جن کا استثناء اسی آیت میں بیان کردیا گیا ہے۔ دیگراجنبی مردوں کےسامنے اپنے چہرے ظاہر نہ کریں۔ یعنی نہ کھولیں۔  یہی مطلب سورہ احزاب والی آیت سے سمجھا جاتا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۔ (احزاب)

ترجمہ۔ اے ہمارے نبی ﷺ! آپ اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور تمام مسلمانوں کی عورتوں سے یہ فرمادیجئے۔  کہ وہ اپنے چہروں پر اپنی چادروں کے گھونگھٹ کرلیا کریں۔ جس سے پہچان لی جایئں اور انہیں ستایا نہ جائے۔ ‘‘

یہ آیت کریمہ چہرہ چھپانے کو نہایت واضح طریق سے ثابت کررہی ہے۔ جلابیب چادروں اور ادفاء لٹکانے کوکہتے ہیں۔  جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادروں کو اپنے اوپرلٹکا لیاکریں۔ جس سے چہرہ چھپ جائے گا کواہ گھونگھٹ سے چھپے یا نقاب وبرقع سے ڈھکے یا کسی اورطریق سے چہرے کو چھپانا مقصود ہے۔  وہ اسی طرح سے حاصل ہوجائےگا۔ مشہور مفسر علامہ ابن جریر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔  يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ

(تفسیر ابن جریر صفحہ 29 ۔ جلد 22)

ترجمہ۔ ’’اے ہمارے نبی ﷺ۔ آپ اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور تمام مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے۔ کہ جب وہ کسی ضرورت کےلئے اپنے گھروں سےباہر نکلیں۔ تو لونڈیوں کے لباس کی طرح لباس نہ پہنیں کہ جس سے سر او ر چہرے کھلے ہوئے ہوں۔ بلکہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ تاکہ کوئی اوباش ان کو چھیڑے نہیں۔ سب کو معلوم ہوجائے کہ یہ شریف خاتون ہیں۔‘‘امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر میں یوں فرماتے ہیں۔

وما كان في الجاهلية تخرج الحرة والا مة مكشوفات يتبعهن الزفاه وتقع التهم فامر الله الحرائر بالتجلب وقوله ادني ان يقرفن فلا يوذين قيل يعرفن انهن حرائر فلا يتبعن و يكمن ان يقال لامراد يعرفن انهن لايزنين لان من تستروجهها مع انه ليس بعورة لايطمع فيها انها تكشفت عورتها فيعرفن انهن مستورات لايمكن طلب الزناة منهن

ترجمہ۔ جاہلیت کے زمانے میں شریف عورتیں اور باندیاں سب منہ کھول کرپھرتی تھیں۔ بدکار لوگ ان کا تعاقب کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپرچادر ڈالیں۔ اور یہ جو فرمایا کہ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ۔ ۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں کہ ایک یہ کہ اس لباس سے پہچان لیا جائے گا۔ وہ شریف عورتیں ہیں۔ اس لئے ان کا پیچھا نہ کیا جائےگا۔ دوسرا یہ کہ اس سے معلوم ہوجائےگا کہ وہ بدکار نہیں ہیں۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپا ئے گی حالانکہ چہرہ ایسا عضو نہیں ہے۔ جس کا چھپانا (ہروقت) فرض ہوتو کوئی اس سے یہ امید نہ رکھے گا۔  کہ وہ شرمگاہ کھولنے پر آمادہ ہوگی۔ (تفسیر کبیر جلد  6 ص 799)

حضرت محمد بن سیرین وعبیدہ بن سفیان سے  دریافت کیا گیا کہ اس حکم پر عمل کرنے کا کیا طریقہ ہے تو انہوں نے خود چادر اوڑھ کربتایا۔ اور اپنی پیشانی اور ناک اور ایک آنکھ چھپالی۔ صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں۔

امر الله نساء المومنين اذا اخرجن من بيوتهن في حاجة ان تغلين وجوههن من فوق روسهن بالجلابيب ويبدين علينا واحدا

(تفسیر ابن جریر 22 ص 32)

’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے۔  کہ جب وہ کسی ضرورت سے باہرنکلیں توسر کے اوپر سے اپنی چادروں کےدامن لٹکا کراپنے چہروں کوڈھانک لیا کریں۔ اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔

ان تمام تفسیروں سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ عورتیں اپنے چہروں کو اجنبی لوگوں سے ضرور چھپایئں۔ جیسا کہ اس آیت سے سمجھا جاتا ہے۔ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کے مبارک زمانہ سے اب تک اس آیت کا یہی مطلب سمجھا گیا جو ہم نے اوپر لکھا ہے۔ آپ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو دیکھئے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ آیت کے اُترنے کے بعد صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی مستورات نقاب اوڑھ کر چہرہ چھپایا کرتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے احرام کی حالت میں عورتوں کویہ حکمدیا ہے کہ وہ اپنے چہروں کو کھلا رکھیں۔ المحرمة لاتتقب ولا تلبس القضازين (ابو دائود موطا)

محرمہ عورت احرام کی حالت میں نہ چہرہ پر نقاب ڈالے۔ اور نہ ہاتھوں میں دستانے پہنے۔ دارقطنی میں ہے۔ کہ عورت کا احرام اس کے چہرہ میں ہے۔ اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔  یعنی احرام کی حالت میں عورت کاچہرہ کھلارہنا چاہیے۔ اور مرد کو چہرہ کھلارکھناچاہیے۔ عورت کی  بے نقابی مخصوص با احرام ہونے سے صاف ظاہر ہے۔ کہ وہ غیر احرام کی حالت میں محل نقاب ضرو ر ہے۔ ورنہ تخصیص شرعی کا ابطال لازم آئے گا۔ جو کسی حالت میں درست نہیں ہے۔ چہرہ کا پردہ تمام امتوں میں تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے جن دو عورتوں کی بکریوں کوپانی پلایا تھا۔ ان میں سے ایک نے واپس آکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض کیا۔ کہ میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ہیں۔ ۔ اللہ تعالیٰ اس واقعے کو  یوں بیان فرماتا ہے۔

 فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ

ترجمہ’’ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک شرماتی ہوئی آکر کہنے لگی۔ میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ہیں۔ ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی الستحیاء کی تفسیر فرماتے ہیں۔ کہ

وضعت ثوبها علي وجهها قالت ان ابي يدعوك

(ابن ابی شیبہ ابن کثیر وقال اسناد صحیح)وہ لڑکی اپنے چہرے پر کپڑا رکھ کر گھونگھٹ کی شکل میں چہرہ کو چھپا کر عرض کرنے لگی کہ میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ہیں۔

صاحب اکلیل اور کمالین اسی آیت کے تحت میں فرماتے  ہیں۔ فیہ مشروعیۃ سقر الوجہ للحرۃ۔ اس آیت کی رو سے شریف عورت چہرہ چھپانے کی شرعاً مامور ہے۔ اگر چہرہ کھلا رہے تو پردہ کس چیز کا علاوہ چہرہ کے پردہ دنیا کی ہرایک قوم کرتی ہے۔ پھر اسلام نے پردہ میں کیا جدت کی۔ فلایوذین سے وہی اعضامراد ہے جو ایک غیرت مند انسان کی بیوی بہن ماں بیٹی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کردیکھے جانے سے اس ایذا وتکلیف پہنچتی ہے۔ (ملخص از اسلامی پردہ ص29 تا 34 )مزید تفصیلات کےلئے جناب عزیز زبیدی صاحب کا مقالہ  (چہرہ ہی تو سب کچھ ہے۔ ) الاعتصام گوجرانوالہ مجریہ 30جولائی 1953ء ص 3 ملاحظہ فرمایئے۔

 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 118

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ