سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) گرامو فون اور ہارمونیم سننا اور بجانا کیسا ہے؟

  • 6689
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1686

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گرامو فون اور ہارمونیم سننا اور بجانا نیز ٹاکیز بائی سکوپ میں جانا جائز ہے۔ یانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ تمام لغویات خلاف شرع ہیں۔ جن سے مرد مومن کو پرہیز کرنا چاہیے۔ جن سے مرد مومن کو پرہیز کرنا چاہیے۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ۔ مومن لغو باتوں سے پرہیز کیا کرتے ہیں۔ (2محرم 1358ہجری)

رقص وسرور شریعت کی روشنی میں

از قلم سیف الرحمٰن صاحب مولوی فاضل اوکاڑہ

شریعت کی رو سے رقص وسرور (گانا بجانا ناچنا۔ )کبائر میں شامل ہے۔ زنا کاری ۔ شراب خوری۔ اوردیگر جرائم کبیرہ۔ اس کے لازمی نتائج ہیں۔ بسا اوقات راگ وسرور کی مجلسیں اور قوالی کی محفلیں اخلاق کےلئے تباہ کن اور ایمان وحیا کےلئے مہلک ثابت ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات بڑے بڑوں کی طبائع میں بھی ایک ہیجان اور اضطراب پیدا کردیتے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ قرآن مجید کی وہ آیات ملاحظہ فرمایئے۔  جن میں ان لغویات سے روکنے کےلئے احکام مذکور ہیں۔ 1۔ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

’’ترجمہ۔ بعض  وہ لوگ ہیں جو  لہو الحدیث اختیار کرکے اپنی جہالت سے خدا کی راہ میں روگ بنتے ہیں۔ اور طریقہ خداوندی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کےلئے رسوا کن عذاب ہے۔ ‘‘

لغت عرب  کی مشہور کتاب قاموس کو اٹھا کردیکھو۔ اس میں لکھا ہے کہ الھیٰ بمعنی اشتغل بالغناء گانے میں یا گانا سننے میں مشغول ہوا۔ الھیٰ باب افعال ہے۔ لہو مصدر سے لہوالحدیث ہے۔ نام ہے گانوں کا اور باجوں کا یہ نام شرعی ہے۔ اس کے لفظی معنی غفلت میں ڈال لینے والی بات کے ہیں۔ پس باجا اور گانا دونوں ہی غفلت میں ڈال دینے والی چیزیں ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہم صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  نے اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ حضرت ابو الصباء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ  میں نے عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا کے اس آیت کے کیا معنی ہیں۔ آپ نے  تین دفعہ قسم اٹھا کرفرمایا۔ واللہ الذی لا الہ غیرہ ھو الغناء خدا کی قسم اس سے مراد گانا ہے۔

2۔ آیت  وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ۔ )مسلمانوں کی صفت یہ  ہے کہ وہ گانوں کی صفت میں شرکت نہیں کرتے۔ اور جب کبھی نادانستہ ایسی لغویات پر گزر ہو تو دامن بچا کر گزر جاتے ہیں۔  امام محمد بن حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ۔ الذور ھوالغناء یہاں ''زور ''سے مراد گانا ہے۔ امام کلبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ لایحضرون مجالس الباطل۔ یعنی وہ باطل کی مجلسوں میں شرکت نہیں کرتے۔ لغت میں لغو کے معنی ہر اس شے کے ہیں۔ جو پھینک دینے کے قابل ہو۔ ہر بے سود  کلام بھی لغتا ً لغو میں شامل ہے۔ چنانچہ لغت عرب کی مستند کتاب قاموس میں ہے۔ )

اللغو هو السقط وما لايعتدبه من كلام وغيره

اسی طرح لکھا ہے کہ كلمة لاغية فاحشة ہر بے ہودہ  اور  فحش کلمہ لغو ہے۔ ''غاوی''کےمعنی صاحب قاموس نے  لکھے ہیں۔ کہ ھو مجلس الغناء۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان وہ ہیں کہ جو قوالی اور راگ وسرور کی مجلسوں میں نہیں جاتے۔

وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ۔ مسلمانوں کی ایک صفت یہ بھی ہے۔ کہ گانا سننے سے منہ پھیر لیتے ہیں۔

 وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ۔ یعنی ’’تو اپنی  طاقت کے مطابق اپنی آواز سے گمراہ کرتا یا بہکاتا پھر۔‘‘ اس آواز سے مراد بھی  گانا ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ صوتہ الغناء یعنی شیطان  کی آواز گانا ہے۔ اور آپﷺسے یہ  بھی مروی ہے کہ صوتہ المزامیر کہ شیطان کی آواز باجے گاجے ہیں۔

أَفَمِنْ هَـٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿٥٩﴾ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ﴿٦٠﴾ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ ۔ ’’کیا تم ا س سے تعجب کررہے ہو یا ہنس رہے ہو۔ اور روتے نہیں ہو اور گانا گارہے ہو۔ سائدون کالفظ سمود سے ہے۔ ‘‘حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ السمود الذی ھو الغناء فی لغت حمیر ۔ ’’یعنی سمود کے معنی گانے کے ہیں۔‘‘ لغت حمیر ہیں۔ امام لغت عرب ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ السمود الذی غنی لہ۔ یعنی جس کےلئے گایا جائے اسے مسمود کہتے ہیں۔ حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ کفار کی یہی عادت ہے۔  کہ وہ قرآن کریم کو سننے کی بجائے گانا سنا کرتے ہیں۔ اذاسمعوا القرآن تغنوا۔ قرآن پاک کی ان آیات کے بعد آپ اس باب میں فرامین رسول اللہ ﷺ بھی ملاحظہ فرمایئں۔

1۔ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے۔ جو ریشم۔ شراب۔ اورباجوں کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری شریف) معاذف کے معنی تمام اہل لغت کے نزدیک آلات لہو لعب ہیں۔ (جن کی بدترین آجکل سینما۔ تھیٹر۔ بائی سکوپ ہیں۔ )

2۔ ان الله محرم الخمر والميسر والمزر والكوبة والقنين

’’اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوے اور باجے تاشے اور طبلے کوحرام فرمایا ہے۔‘‘ (مسند احمد)

3۔ لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن ولا خير في تجارة فيهن وثمنهن حرام ومثل هذا نزلت هذه الاية ومن الناس من يشري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله الاية(ترمذی)

’’یعنی گاناگانے والیوں کی خرید وفروخت نہ کرو۔ اور نہ انہیں گانا سکھائو۔ اور ان کی تجار ت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اور ان کی قیمت حرام ہے۔ یہی بے ہودہ باتیں ہیں۔ جوفرمان قرآن راہ خدا کی روک ہیں۔‘‘

4۔ ابن ابی الدنیا میں ہے۔ رسول کریم علیہ افضل الصلواۃ والسلام نے اپنی امت میں زمین میں  دھنس جانا صورتوں کا بدل جانا اور آسمان سے سنگ کا بیان فرمایا تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ عذاب لا الہ الا ا للہ پڑھنے والوں پرنازل ہو ں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اذا ظهرت القينات وظهر الربواالخ جب قوال گانے والیاں اور سود ظاہر ہوگا۔ اس پر گوئیے اور ان کے مشتاق صوفی خوب غورفرمالیں۔

’’میری امت کی ایک جماعت کھاتی پیتی لہو لعب کرتی اچانک سور بندر بن جائے گی تیز آندھی چل کر میری امت کے بعض لوگوں کو اڑا کردریا برد کردےگی۔  اس گناہ پر کہ یہ شراب حلال کرلیں گے۔  باجا بجایئں گے اور گانے والیوں کو مقرر کرلیں گے۔ ‘‘(مسند احمد۔ ترمذی)

6۔ رسول اکرم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم قریب المرگ ہیں۔ حضور ﷺتشریف لائے اور بچے کو گود میں اٹھا لیتے ہیں۔ چند لمحے بعد آپ کا  فرزند ارجمند داعی اجل کو لبیک کہہ دیتا ہے۔ اور طائر روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتا ہے۔  آپ کے آنکھیں اشک باری میں مصروف ہوجاتی ہیں۔  اور آ پ کا شب تاریک میں ضیا افشانی کرنے والا منورچہرہ۔ ۔ ۔ اشک باری سے لبریز ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عرض کرتے ہیں۔ یارسول اللہ ﷺ آپ لوگوں کو تو اس سے منع فرماتے تھے۔  پھر یہ کیا بات ہے۔ آپﷺ نےفرمایا۔ آنسو بہانا تو میں نے حرام نہیں کیا۔  میں نے دو احمق آوازوں سے منع کیا ہے۔ صوت عند النغمہ لھو لعب۔ ومزامیر شیطان۔ ایک تو وہ آواز جو گانے کی نغمہ اور لے والی آواز ہو۔ دوسری وہ جو مصیب کے وقت منہ نوچنے  کپڑا پھاڑنے اور نوحہ کرنے کے ساتھ ہو۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کوحسن  کہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شیطان نے کہا الٰہی میرا موذن کون ہے؟ فرمایا باجے۔ اس نے کہا میرا قرآن کیا ہے۔ فرمایا گیا شعر واشعار اس نے کہا میرا کھانا کیا ہے۔ فرمایا گیا مردہ۔ اور ہر وہ جانور کو خد ا کے نام پر ذبح نہ کیا جاوے۔ اس نے کہا الٰہی میرا پیشہ کیا ہے۔ حکم ہوا ہر نشہ آورچیز اس نے کہا میرا مکان کونساہے۔ حکم ہوا کہ بازار تیرا مکان ہے۔ اس نے کہا میری شکاری رسیاں اور پھندے کیا ہیں۔ حکم ہوا عورتیں اس نے کہا میری آوازکیا ہے۔ فرمایا کہ باجے گاجے تیری آواز ہیں۔ اوکما قال ﷺ (طبراني)

الغرض سماع وغنایہ یہ شیطانی قرآن ہے۔ اور وجد ورقص یہ شیطانی نماز ہے۔ باجے گاجے شیطانی نماز کے موذن ہیں۔ اس کے امام مغنی  قوال اور گویئے ہیں اور مجلس قوالی کے تمام حاضرین اسی ابلیسی نماز کے مقتدی ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلک

8۔ فقہ کی معتبر کتاب جامع الرموز میں ہے۔

قال صلي الله عليه وسلم كان ابليس اول من تغني

’’سب سے پہلے جس نے گانا یا وہ ابلیس ہے۔‘‘

حنفی مذہب کی مستند کتاب فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے۔

اما استماع صوت الملا هي كالضرب بالقب وغير ذلك  حرام ومعصية لقوله استماع الملا هي معصية والجلوس عليها فسق والتلذ بها كفر

’’یعنی باجے گاجے سننے حرا م اور گناہ ہیں۔ کیونکہ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے۔ کے باجوں کا سننا گناہ اور اس کےلئے محفل رچانا فعل بد ہے۔ اور اس سے لطف واندوز ہونا کفر ہے۔‘‘

صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  اور دیگر اکابر امت کے اقوال

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے  ہیں۔

الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الملا الزرع

’یعنی  گانا اس طرح دل میں نفاق اُگاتا ہے۔ جس طرح کے بارش کھیتی کو اُگاتی ہے۔‘‘ امام ابن ابی الدنیاکی کتاب زم الملاہی میں مذکور ہے۔  کہ امام ضحاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

الغناء مفسدو للقلب مسخطة للرب

یعنی غناء دل کو بگاڑنے والا ہے۔ اور خدا کوناراض کرنے والا ہے۔ ''

سرداران صوفیا حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ الغناء رقيقة الزنا غنا زنا کا منتر ہے۔ امام یزید بن ولید رحمۃ اللہ علیہ  کا فرمان ہے۔ ان الغناء راعية الزناگانا سننے سے بدکاری کا چسقا پڑ جاتا ہے۔ خلیفہ وقت سلمان بن عبد الملک قوالوں  اور گویوں کوسخت سزایئں دیا کرتے تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے شرح صحیح  مسلم میں لکھا ہے۔

حرمه (الغناء)  ابوحنيفة واهل العراق ومذهب الشافعي كراهة وهو المشهور من مذهب مالك

یعنی امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ  اور اہل عراق نے اسے حرام قراردیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک مکروہ ہے۔  اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی مشہور مذہب یہی ہے۔ ایک اور جگہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ من استكثر عنه  فهو سفيه وترد شهادته جو گانا بہت سنتا ہے۔ وبے وقوف ہے۔ اور ا س کی شہادت مردود ہے۔ ایک اور مقام  پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ احدثته الزنادقة کہ اس راگ کو زندیقیوں نے جاری کیا ہے۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے فتاویٰ میں  تحریر فرمایا ہے۔  اما غناء۔ پس کلام خدا او ر احادیث رسول اللہ ﷺ بحرمت آں ناطق است۔ یعنی قرآن وحدیث کے الفاظ تو صاف صاف گانے کی حرمت میں نازل ہوئے ہیں۔ پھر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ  اسی  فتوے میں حنفی مذہب کی معتبر کتاب محیط سے نقل فرماتے  ہیں۔

التغني والتصفيق واستماعها كل ذلك حرام ومستحلها كافر

یعنی گانا گانا اور تالیاں بجانا اور گانے اور تالیوں کے شوق سے سننا یہ تمام باتیں حرام ہیں۔ اور انھیں حلال کہنے والا کافر ہے۔ ان کے علاوہ بیسیوں اور مقتدر  ہستیوں اوراکابران دین کے اقوال اس سلسلے میں ہماری ر اہمنائی کرتے ہیں۔ مضمون کے طویل ہونے کے باعث انھیں چھوڑ دیا  جاتا  ہے۔

 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 104

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ