سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) مجدد بریلوی کا ایک فتویٰ اوراس کی تردید

  • 6009
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2257

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ناظرین آگاہ ہوں گےکہ ہندوستان میں دوشخص مجدد ہونے کے مدعی تھے جن میں سے ایک تو فوت ہوگئے۔ دوسرے زندہ ہیں۔ فوت شدہ مرزا قادیانی تھے۔ زندہ احمدرضا  خان بریلوی ہیں۔ مرزا صاحب کا دعویٰ مجددیت خان صاحب کے دعوے سے کم تھا۔ کیونکہ وہ تو چودہویں صدی کے مجدد بنتے تھے۔ اور آپ کا لقب ہے۔ ''مجددمائۃ حاضرہ'' یعنی موجودہ صدی کے مجدد۔ یہ لفب آپ کاآپ کی علمی خدمات کے زمانے سے چلا ہے۔ جس کی ابتداء  تیرہویں صدی سے ہے۔ پس اس تشریح کے مطابق آپ تیرویں اورچودویں دونوں صدیوں کے مجدد ہوئے اور اگر عمر شریف دراز ہوئی تو شاید پندرہویں بلکہ سولہویں اور سترہویں وغیرہ کے بھی آپ  ہی انچارج ہوں۔ (مگر افسوس کے جناب والا تمنائے مجدد یت کو ساتھ لے کر چودہویں صدی ہی میں عالم آخرت کوسدہار گئےع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

خیر ہمیں اس سے بحث نہیں۔ اپنا نام جوچاہے کوئی رکھے ماننے والےتیار ہیں۔ کہ بے کراہت بھی ولی اور بے معجزہ بھی نبی  مان لیں جن کی نظیریں ۔ قادیان علی پور اور بریلوی وغیرہ میں ملتی ہیں۔ مجدد قادیان کی عنایاتتوساری اسلامی دنیا پر برابر تھی۔ مگربریلوی مجدد کی عنایت خاص کرغریب جماعت اہل حدیث پر۔ او ر بوقت فرصت اپنی حقیقی باردران جماعتدیوبندیہ  پر ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ حال ہی میں ایک طویل اشتہار بمبئی سے آیا ہے۔ جو ہاتھی کے دوکانوں کے برابر ہوگا۔ اس میں خاکسار ایڈیٹر کو اور جناب مولوی عبد الشکور صاحب لکھنویکو بالخصوص اہل حدیثوں اور دیوبندیوں کو بالعموم اپنی قدیم عنایت کا مستحق بنایاگیاہے۔ اس اشتعار کی طوالت سے قطع نظر دیکھا جائے تو مطلب دو حرفہ ہے۔ کہ جناب مولوی عبد الشکورصاحب لکھنوی بظاہرحنفی ہیں۔ مگردر اصل غیر مقلد ہیں۔ اس لئے نہ ان کا وعظ سناجائے۔ نہ ان کی اقتداء کی جائے۔ جس پر میں مولوی صاحب موصوف کومستحق مبارک سمجھتا ہوں کیوں؟بقول حالی مرھومؒ

کہنا  فقہاء   کا   مومنوں کو     بے دین             سنتے  سنتے  یہ ہوگیا ہے   یقینُ

مومن کو ضرور ہوگا  مرقد میں سوال           تکفیر بھی کی تھی فقہاء نے کہ نہیں

اس اشتہار کی تمہید یوں شروع ہوتی ہے۔ مسلمانو! اس زمانہ میں اکثر بدعتی بد مذہبوں کے مولیوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ کہ کسی نے بظاہر آریوں کے رد میں کس نے قادیانیوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر شہرت پیدا کر کے اس ذریعہ سے اکثر بھولے بھالے بے علم مسلمانوں کو اپنا مععتقد بنا کر ان کو غیر مقلد وہابی بنانے کی فکر کرتے ہیں۔ من جملہ کے ان کے  ایک ''ثناء اللہ امرتسری'' ہے ۔ کوئی شخص شعیوں کے رد میں کھڑا ہوکر اس قدرت شہرت پیدا کر لیتا ہے۔ کہ اکثر ہمارے مسلمان بھائی اس کو مقلد ۔ سنی۔ حنفی۔ متقی۔ جان کر اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اس طرح ان کو رفتہ رفتہ خارجی۔ اور غیر مقلد۔ وہابی بنانے کی تدبیرکرتے رہتے ہیں جیسے مولوی عبد الشکور صاحب لکھنو''اس تمہید میں مجدد صاحب نے بزبان محرر اشتہار ہم دونوں کودھوکہ باز۔ مکار۔ وغیرہ بتایا ہے ۔ جس کئے جواب میں ہم بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہ بہت سے بدعتی دشمنان آئمہ کرامکی طرف اپنی نسبتیں بتا کر حنفی یا شافعی بن کر بے چارے غریب  ناواقف لوگوں کو دھوکادیتے ہیں۔ کہ ہم اہل سنت ہیں۔ مگر وہ دراصل وہ کچھ اور ہی ہوے ہیں جن خیالت پر فقہاء نے کفر کے فتوے لگائے ہیں وہی خیالات وہ لوگوں میں پھیلاتے ہیں۔ اور ان سے منع کرنے والوں کو گمراہ اور بد مذہب مشہور کرتے ہیں۔ اعذناللہ عنھم

انہوں نے خود غرض شکلیں کبھی دیکھی نہیں شاید

وہ جب آئینہ  دیکھیں گے  تو ہم  ان کو بتادیں گے

اچھا یہ تو تھی خانصاحب موصوف کی تمہید اب اصل مدعا سنیے!خاکسارثناء اللہ کو تو خان صاحب نے یوں ہی ساتھ چیپی لگایا۔ اصل مجرم تو مولوی صاحب لکھنوی ہیں۔ جنھوں نے بڑا غضب کیا ہے۔ فتویٰ دےدیاکہ غیر مقلدوں کےے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔ ہائے افسوس اس ظلم کی بھی کچھ حد ہے۔ اس پر آسمان ٹوٹے زمین پھٹے سب بجا ہے۔ اصل نزاع اشتہار مذکور میں یوں دیکھائی گئی ہے۔

‘’کیا فرماتے ہیں علماءدین ومفتیان شرع متین۔ اس  تحریر زید پر جس کو وہ اپنے رسالہ میں لکھ کر شائع کرتا ہے۔ اورادعائے علمیت کرتا ہوا لکھتا ہے۔ جو بعینہ نقل ہے۔ (ف)  اگر امام اور مقتدی کا مذہب ایک نہ ہو۔ مثلا امام شافعی یا مالکی مذہب ہو۔ اور مقتدی حنفی مذہب ہو تو اس صورت میں امام کی نماز کا صرف ایک مذہب کے  موافق صحیح ہوجانا کافی ہے۔ خواہ مقتدی کے موافق  بھی صحیح ہو یا نہیں۔ ہر حال میں بلا کراہت اقتداء درست ہے۔ الیٰ آخرہ یہی حکم غیر مقلدین کے پیچھے نمازپڑھنے کا ہے۔ یعنی مقلد کی نماز ان کے پیچھے بلا کراہیت درست ہے۔ خواہ مقتدی کے  مذہب کی رعایت کریں یا نہ کریں۔ حاشیہ پر یہ عبارت درج ہے۔ نمبر20 ہمارے زمانے کے بعض متعصب مقلدین غیر مقلدین کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ یہاں تک کہ اگر کسی امام کو بلند آواز سے آمین کہتے۔ سنایا سینہ پا ہاتھ باندھتے ہوئے دیکھا تو اپنی نماز کا اعادہ کرلیتے ہیں۔ میری فہم ناقص میں یہ تعصب نہایت برا ہے۔ اور غالبا کوئی عقلمند جو شریعت کے مقاصد سے واقف ہوا اس فعل قبیح کو جس سے امت میں افتراق پیدا ہو جائز نہ رکھے گا۔ ہاں اگر کوئی غیرمقلد ہمارے امام صاحب کو براکہتا ہو۔ تو وہ ایک مسلمان کی غیبت کرنے فاسق ہوجائے گا۔ (1) اس صورت میں اس کے پیچھے نماز مکروہہوگی۔ مگرجائز بھی رہے گی۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایسے کم علموں پر تقلید واجب ہے۔ غرض اس کی عبارتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کہ ہر مذہب والے کی ہر مذہب  والے کے پیچھے نماز جائز ہے۔ عام ہے اس سے کہ وہ مقتدی کے مزہب کی پابندی کرے یا نہ کرے۔ شافعی امام کے پیچھے حنفی مقتدی کی نماز جب بھی ہوجائےگی۔ جب وہ مسح صرف دو چار سر کے بال چھو کر کرے جو  ان کے  یہاں  فرض ہے۔ اب سوال طلب یہ امر ہے۔ کہ اس شخص کو ہم حنفی جانیں یا وہابی غیرمقلد جانیں یا اہل حدیث۔ اوراس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز جانیں یا کیا۔ اورایسے شخص کے پیروں کے جو اس کے وعظ میں جانے اور اعتقاد انہ برتائو کرتے ہیں۔ کیا کہیں۔ اور ایسے شخص کی محفل وعظ میں جانا جائز ہے۔ یا حرام یہ شخص بظاہراپنے کوحنفی سنی بتانا ہے۔ لیکن اپنی تحریرات مندرجہ بالاسے خفیہ خفیہ غیرمقلدین کی اعانت کرتا ہے۔ بینوا بالکتاب (المستفتی عبد الحکیم  خان میرٹھ)

----------------------------------------------------

1.حضرت مولانا سید نزیر حسین صاحب مرحوم دہلوی کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ آئمہ کرام کو برا کہنے والا فاسق ہے جس پر ہمارا بھی صاد ہے۔ (ابو الوفاء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

از جانب اعلیٰ حضرت عظیم البرکت حامی سنت ماحی بدعت۔ حضرت مولانا مولوی محمد احمد رضا خان صاحب بریلوی۔ ایسا شخص نہ سنی ہے نہ حنفی نہ اسے اپنا امام بناتا  حلال ہے۔ نہ اس کے پیچھے نماز پڑھناجائز نہ اس کا وعظ سننا روا۔ اولا مسئلہ اقتداء بالمخالف میں جمہور آئمہ اعتبار رائے مقتدی پر ہیں۔ یعنی جب مقتدی کے نزدیک امام کی طہارت یا نماز صحیح نہیں ہے۔ تو  یہ اس کی اقتداء نہیں کرسکتا اگرچہ اس کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہو۔ ثانیا اس نے اسی قدر پر بس نہ کی بلکہ غیر مقلدین کو بھی اس حکم میں داخل کرلیا۔ ان کے عقائد وہ ہیں۔ جن میں نہ خالی ضلالت بلکہ کثرت کفریات ہیں۔ جن کی رو سےان پر بحکم فقہاء کرام لزوم کفر ہے۔ (ملخص) (فقیر احمد رضا خاں قادری۔ بریلوی )

اہل حدیث

مجدد بریلوی کے علا وہ او ر حضرات بھی اس فتوے کےمصح ہیں۔ جن میں خیریت سے ایک ہمارے دوست مولوی اسرارالحق واعظ بھی ہیں۔ جن کی کمالات علمیہ اور خیالات دینیہ ان کے واقفوں کو معلوم ہیں۔ ہمیں اس س مطلب نہیں کہ کون کون اس فتوے کے مصح ہیں۔ اور ان کی لیاقتیں اور مذہبی علوم میں دسترس کہاں تک ہے۔

انصاف کی بات یہ ہے

کہ خان صاحب بریلوی اوردیگر مفتیاںفتویٰ کو لازم تھا کہ جس الزام کوغیر مقلدیت کا ملزم مولوی عبد الشکور کو بنایا تھا۔ فتویٰ نویسی میں خود اس الزام کے ملزم  نہ ہوتے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ خاص کر مجددصاحب بریلوی اس فتوے سے پکے خیر مقلد ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ مقلد کی شان یہ  ہے کہ اپنے امام کے قول پر فتویٰ دیوے (درمختار) مجدد بریلوی نے اپنے سارے فتویٰ میں ایک جگہ بھی حضرت امام ابو حنیفہ کاقولنقل نہیں کیا۔ جس سے  ثابت ہوتا ہے کہ ان کا دعویٰ تقلید حنفی کا سراسر بے ثبوت بلکہ غلط ہے۔ اب ہم یہ دکھاتے ہیں کہ خان صاحب نے اصل مسئلہ پر بھی غلطی کی ہے۔ آپ  نے بہت سی کتب فقہ کانام کے کر بے خبر ناظرین کوباور کرایاہے۔ کہ یہ فتویٰ کتب فقہ پر مبنی ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ جن جن کتابوں کا نام آپ نے لکھا ہے۔ ان میں ایک مشہوراورمستند اول کتاب رد المختار شرح درمختار ہے۔ ہم اس میں سے ایک حوالہ دکھلا کر بتلاتے ہیں۔ کہ خان صاحب بریلوی نے محض اپنے پاس سے لکھ کر ان مصنفوں کے نام جڑ دیا ہے۔

علامہ شامی مصنف (رد المختار)  نے یہ مسئلہ کئی ایک جگہ لکھا ہے۔ کہ مخالف مذہب کے پیچھے نماز درست ہے۔ ہم صرف ایک جگہ کی عبارت نقل کرنے پر کفایت کرتے ہیں۔ فرقہ معزلہاورجہمیہ اسلامی فرقوں میں کیسے کچھ مور و عتاب و محل غضب ہیں۔ ان کی بابت صاحب در مختارنے کچھ سخت الفاظ ان کی تکفیر وغیرہ کے  لکھے تھے۔ جن کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں۔

والراجع عند اكثر الفقهاء والمتكلمين خلافهوانهم فساق عصات ضلال ويصلي خلفهم وعليهمويحكم بتوار ثهم مع المسلمين (جلد5 ص 196)

اکثر فقہاء اور متکلمین کے نزدیک زیادہ تر صحیح یہ بات ہے کہ معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ مسلمان فاسق بے فرمان اور گمراہ ہیں۔ ان کے پیچھے بھی نماز پڑھی جائے۔ اور ان کا جنازہ بھی پڑھا جائے اورمسلمانوں کےساتھ ان کی وراثت بھی جاری کی جائے۔

اس اقتباس میں علامہ شامی نے فرقہ معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ کو باوجود فساق وٖغیرہ کہنے کے ان کی اقتداء درست لکھی ہے۔ ااوراس کو آئمہ مجتہدین کا مذہب قراردیا ہے۔ پھر نہیں معلوم اوراہل حدیث کیا ان فرقوں سے بھی بدتر ہیں۔ کہان کے پیچھے نماز درست نہیں۔ بلکہ درست کہنےوالے کے پیچھےبھی درست نہیں۔ امام ابو حنیفہ کافتویٰ ہے۔ صلوا خلف كل بر و فاجر ہر ایک نیک وبد کے پیچھے نمازپڑھ لیاکرو۔ (فقہ اکبر) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حالت محاصرہ  میں پوچھا گیا۔ کہ باغیوں کے پیچھے نمازپڑھنے کا کیا حکم ہے۔ فرمایا۔

 الصلواة احسن ما يعمل الناس فا ذا احسن الناس فاحسن معهم واذااساوافا جتنب اسا ئتهم (بخاری شریف)

یعنی نماز سب کاموں سے اچھا کامہے۔ جب کوئی اچھاکام کرے۔ اس کے ساتھ مل جاؤ۔ اورجب برا کریں توہٹ جائو۔ یعنی  وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ﴿٤٣سورة البقرة

سبحان اللہ یہ ہے پاکیزہ  تعلیم اور یہ ہے صحبت کا اثر ﷺ کیا آجکل کے مجددین اس تعلیم کی ترویج کے لئے پیدا ہوئے ہیں جو زمانہ سلف صالحین میں مروج تھی یا وہ اپنی طرف سے کبھی ایجاد کرنے کے مجاز ہیں۔

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تروے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 408-413

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ