سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183) اتفاق سے عید و جمعہ دونوں ایک ہی دن میں جمع ہوجائیں تو

  • 5690
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 780

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اوّل: اگر اتفاق سے عید  و جمعہ دونوں ایک ہی دن میں   جمع ہوجائیں تو اس میں   جمعہ کا پڑھنا رخصت ہے یا نہیں ، زید ایسے دنوں میں   جمعہ نہیں اداکرتا ہے اور کہتا ہےکہ میں   ایک سنت مردہ کوزندہ کرتا ہوں، یہ کہنا اس کا کیسا ہے؟

دوم: خطبہ جمعہ کے لیے عصا یا قوس کالینا ضروری ہے یاغیرضروری ہے؟

سوم: جمعہ کے روز اذان ثالث جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اوّل: جب عید اور جمعہ ایک دن میں   جمع ہوجائیں تو اس دن اختیار ہے جس کاجی چاہے جمعہ پڑھے اور جس کاجی نہ چاہے نہ پڑھے اور ایسے دنوں میں   زید جو نماز جمعہ ادانہیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں   ایک مردہ سنت کوزندہ کرتا ہوں، سو اس کا یہ کہنا اچھا ہے۔ منتقی میں   ہے:

(ترجمہ) ’’ زید بن ارقمؓ سے امیرمعاویہؓ نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی ایسےموقع کی حاضری تم کوملی ہے جب کہ جمعہ اور عید اکٹھے ہوں، زید نے کہا ہاں! آپ نے دن کے پہلے حصہ میں   عید کی نماز پڑھی پھر جمعہ کےمتعلق رخصت دے دی کہ جو جمعہ پڑھنا چاہے ، پڑھ لے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج تمہاری دو عیدیں جمع ہوگئیں ہیں، جوچاہے اس کے لیے  عید کافی ہے اور ہم جمعہ پڑھیں گے ، عبداللہ بن زبیرؓ کے زمانہ میں   عید اور جمعہ اکٹھے ہوگئے ، آپ عید کے لیے دیر سےنکلے ، خطبہ دیا اورنیچےاتر آئے ،عیدکی نماز پڑھی اورلوگوں کو جمعہ نہ پڑھایا ، ابن عباس سے اس کاتذکرہ ہوا تو انہوں نےفرمایا اس نےسنت کے مطابق کیا ۔‘‘

دوم: خطبہ جمعہ کے لیے عصا یا قوس کالینا ضروری نہیں ہے ، بلکہ مندوب و مستحب ہے۔ عن الحکم بن  الحزن شھدنا الجمعۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقام متوکئا علی العصا او قوس رواہ ابوداؤد۔یعنی حکم بن حزن سے روایت ہے کہ ہم لوگ جمعہ میں   حاضر ہوئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ، آپ عصا یا قوس پرٹیک دے کرکھڑے ہوئے ، روایت کیا اس کو ابوداؤد۔ قال[1] فی سبل السلام تحت ھذا الحدیث وفی الحدیث دلیل انہ یندب للخطیب الاعتماد علی عصا اونحوہ وقت خطبۃ والحکمۃ ان فی ذلک ربط القلب ولتعتمد یدیہ علی العبث ومن لم یجد ما یعتمد علیہ ارسل یدیہ اووضع الیمنی علی الیسری او علی جانب المنبر و یکرہ دق المنبر بالسیف اذا لم یؤثر وھو بدعۃ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔

سوم: جائز ہے۔منتقی میں   ہے: عن[2] السائب بن یزید قال کان الندار علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الجمعۃ اولہ اذا جلس الامام علی المنبر علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ابی بکر و عمر فلما کان عثمان و کثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء ولم یکن للنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤذن غیرواحد رواہ البخاری والنسائی و ابوداؤد فی روایتہ لھم فلما کانت خلافۃ عثمان و  کثروا امر عثمان یوم الجمعۃ بالاذان الثالث فاذن بہ علی الزوراء فثبت الامر علی ذلک انتہی ۔واللہ اعلم بالصواب۔حررہ عبدالرحیم عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)



[1]   اس حدیث میں    دلیل ہے کہ خطیب کو عصاپرٹیک لگانا مستحب ہے اور اس میں   یہ حکمت بھی ہے کہ اس سے جمعیت خاطر رہتی ہے جوعصا پرٹیک نہ لگائے وہ کبھی ہاتھوں کو حرکت دے گا ، کبھی چھوڑ دے گا ، کبھی باندھ لے گا اور لاٹھی یا تلوار سے منبر کو کھٹکھٹنامکروہ ہے۔ 

[2]   سائب بن یزید نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ و عمرؓ تو  کے زمانہ میں   پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پربیٹھتا اور جب عثمانؓ کا زمانہ آیا اور لوگ زیادہ ہوگئے تو زوراء مقام پرتیسری اذاب بڑھا دی گوی اور حضور کے زمانہ میں   ایک ہی مؤذن ہوتاتھا اور ایک روایت میں   ہے ،جب عثمانؓ کی خلافت ہوئی اور  لوگ زیادہ ہوگئے تو حضرت عثمانؓ نے جمعہ کے دن تیسری اذان بڑھا دی، پس زوراء پراذان دی گئی، پھر معاملہ اس پرٹھہر گیا۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 573

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ