سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) عمل تقلیدی کسی حجت شرعیہ میں سے ہے یا نہیں؟

  • 5526
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1682

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اضعف العباد نجم الدین مرشد آبادی بحکم آیت کریمہ ولا تلبسوا الحق بالباطل (حق کوباطل سے نہ ملاؤ) مقلدوں سےسخت ایذا پانے کے بعد نہایت مضطر ہوکر علمائے دین محمدی سےسوال کرتا ہے کہ عمل تقلیدی کسی حجت شرعیہ میں سے ہے یا نہیں ۔بینوا بالحق ولاتکتموا الحق۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمل تقلیدی کسی ایک حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے یعنی عمل بقول اس شخص کے کرنا کہ جس کا قول بلا دلیل شرعی کے حجت نہ ہو، اس کوعمل تقلیدی کہتے ہیں اور تقلید کی تعریف یہ ہے۔ التقلید[1] العمل بقول الغیر من غیر حجۃ متعلق بالعمل و المراد بالحجۃ حجۃ من الحجج الاربع کذا فی کتب الاصول الحنفیہ وغیرہا کما لا یخفی علی الماھر بالاصول۔ پس  تقلید کی تعریف سے حسب اصطلاح مقلدین کے واضح ہوکہ عمل تقلیدی دلائل اربع یعنی کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ﷺ و اجماع صحابہ و مجتہدین و قیاس صحیح مجتہدین مسلم الاجتہاد سے خارج ہے اور یہ عمل تکلیفی شرعی اصلاً نہیں اور جو عمل بلا ادلہ اربعہ کے پایا جائے وہ عمل تکلیفی شرعی نہیں، وہ شرعامردود و باطل ہے پس عمل تقلیدی بھی مردود او رباطل ہوا، الحمدللہ کہ بے اصل شرعی ہونا تقلید کابموجب اصطلاح مقلدین کےثابت ہوا او ریہ مقلدین پر سخت حجت ہے۔ کما[2] لایخفی علی المتفطن المنصفن بالماھر بالشریعۃ المحمدیۃ۔

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیرمیں فرماتے ہیں کہ یہ ایت دلالت کرتی ہے کہ ماسوائے ادلہ اربعہ (یعنی کتاب سنت، اجماع، قیاس )کے جو دلیل ہے، وہ مردود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک متعلق ایک خاص معین ہدایت کی ہے او رکسی مکلف کو جائز نہیں ہے کہ ان چار دلیلوں کے سوا کسی اور چیز سےاستدلال کرے، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے ’’استحسان‘‘او رامام مالک کے ’’استصلاح‘‘ سے مراد اگر انہیں چاروں امور میں سے کوئی چیز ہے تو یہ صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے اور اگر اس کے سوا اور کوئی چیز ہےتو یہ بالکل باطل ہیں او رآیت اس کے بطلان پر صاف دلالت کررہی ہے۔ ’’اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول‘‘ الآیۃ کے تحت تفسیر کبیر کامضمون ختم ہوا۔

امام شوکانی کہتے ہیں ، کہ میں نے اپنے رسالہ ’’القول المفید فی حکم التقلید‘‘ میں چاروں اماموں کےتقلید کی ممانعت کےبارے میں اقوال نقل کئے ہیں ہم یہاں اس بحث کو لمبا کرنا نہیں چاہتے، اگر تقلید کی ممانعت میں اجماع نہیں ہے تو بہرحال جمہور کا مسلک یہی ہے اور جمہور کامسلک اس پراجماع ہے کہ مردوں کی تقلید منع ہے اور مجتہد کو عدم دلیل کے موقع پر اپنی رائے پرعمل کرلینے کیاجازت ہے او راس پراجماع ہے کہ کسی دوسرے کو اس کی رائے پر عمل کرنا جائز نہیں ہے ، ہدایۃ السائل کے بیان کے مطابق یہ دونوں اجماع تقلید کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔

اور برعکس  وخلاف اس کے ہر مقلد بمجرد تقلید آباء و اسلاف کے فریفتہ اور مغرور ہوکر کتاب  اورسنت سے ستیزہ کنان اسی  تقلید بلادلیل پر اڑا ہوا اپنے خیال خام اور ہوس نافرجام پر شادان و نازان ہے، چنانچہ آیت کریمہ کل حزب بمالدیھم فرحون ایسے ہی مقلد متعصب پرمشعر اور مخبر ہے ۔ وہ ذرا غور اور فکر نہیں کرتا کہ تقلیدبلا دلیل درمیان محق اورمبطل کے امر مشترک فیہ ہے اس لیے کہ ہر فرقہ کہ جس کی تقلید بلادلیل کرتا ہے اس و اچھا جانتا ہے اور دوسرا فرقہ،فرقہ ادلےٰ کے مقابلے اس کے برعکس سمجھتا ہے، پس اگر یہ  تقلید بلا دلیل فی نفسہ مفضی الی الحق والصواب ہو تو شئے اور نقیض شئے کا حق اور صواب پر ہونا لازم آتا ہے او راسی کو اجتماع نقیضین کہتے ہیں کیونکہ ہر شخص اپنےمقلد کو اچھا اور دوسرے کو ناپسند رکھتا ہے اور یہ امر بالبداہت شرعاً اور عقلاً بلا ریب باطل ہے۔ ولا یلقہا الا العالمون، اور اسی سب سے اللہ جل شانہ نے جابجا اپنے کلام پاک میں تقلید بلادلیل کورد کیا ہے، خاص کر سورہ زخرف میں زیادہ تر تقلید بلادلیل کی شناعت اور مذمت فرمائی ہے۔

وہ کہتے ہیں، کہ اگر خداچاہتا تو ہم اس کی عبادت نہ کرتے،ان کو اس کاکوئی علم نہیں، وہ محض تک بندی کرتے ہیں کیا ہم ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے، جس سے وہ دلیل لیتے ہوں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے  اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا، سو وہ ان کےکھو جوں کی پیروی کررہے ہیں، ایسا ہی ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر بھی ایسا نہیں بھیجا جس کو اس کی امت کے دولت مندوں نے یہ نہ کہا ہو کہ ہم نے اپنے  باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے، سو وہ ان کے نشانات کی پیروی کررہے ہیں، کہااگرچہ میں تمہارے باپ  دادا کی راہ سے بہتر راہ تم کودکھلاؤں ، کہنے لگے ہم تمہاری تعلیم ہی کے منکر ہیں، سو ہم نے ان  سے انتقام لیا ،آخر آیت تک مدعا یہ  ہے کہ کیا ان لوگوں نے اس طریقہ باطل کو قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کسی کتاب سے معلوم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ اعتماد کئے بیٹھے ہیں او ریہ بطریق استفہام انکاری کے ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس کی کوئی نقلی اور عقلی دلیل نہیں ہے تو ضرور ہے کہ یہ طریقہ باطل ہو، پھر فرمایا انہوں نے کہا ہم نے  اپنے باپ دادا  کو اسی طریقہ پر پایا ہے او رمقصود یہ ہے کہ ان لوگوں کے اس ان صاف دلائل کا کوئی جواب سوائے تقلید آباء کے نہیں ہے او رپھر فرمایاکہ یہ جاہلوں کا تقلید کا طریقہ بہت پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں، ان کو ان کی قوم کےدولت مندوں نے یہی باپ دادا کی تقلید کاجواب سنایا ہے۔

صاحب کشاف کہتے ہیں، کہ اگر قرآن مجید میں صرف یہی آیات ہوتیں تو بھی تقلید کی تردید کے لیے کافی تھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کفار کے پاس اپنے دین باطل کے اثبات کے لیے سوائے تقلید آباء کے اور کوئی عقلی یانقلی دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس تقلید کو مذمت کے انداز میں بیان فرمایا ہے اس سے معلوم ہواکہ تقلید کا مسلک باطل ہے اور عقلی حیثیت سے بھی تقلید میں دونوں امکان ہیں، ہوسکتا ہے کہ مقلد حق پر ہو اور ہوسکتا ہے کہ باطل پر ہو، کیونکہ اقوام دنیا میں ایک دوسرے کے طریق کے بالکل مخالف تقلید کرنے والے موجود ہیں، تو اگر تقلید امر حق ہوتا تو لازم آتا کہ شے اور نقیض شے دونوں حق ہوں اور یہ صریحاً باطل ہے۔ تفسیر کبیر کا خلاصہ ختم ہوا۔

اور نیز دوسری دلیل بطلان تقلید پر یہ ہے کہ قول بوجوب تقلید موجب منع تقلید سے ہوگا او رجو چیز مفضی ہو اس کاثبوت طرف نفی اس کی کہ (یعنی ہرمقلد دوسرے مقلد کی تقلید کو نفی اورناپسند کرتا ہے) تو وہ باطل ہے اس قول سے بطلان تقلید کا واجب ہوا۔

اور جب ابراہیم علیہ السلام نے پنے اولاد سے کہا کہ میں تمہارے معبودوں سے بیزار ہوں، مگر اس اللہ سے جس نے مجھے پیدا کیا، وہ میر راہنمائی کرے گا، آخر آیات تک، پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ان کے پاس ان باطل اقاویل کی تائید میں سوائے تقلید آباء کے اور کوئی دلیل نہیں ہے، پھر فرمایا تقلید کی راہ تو باطل ہے اور دلیل کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، یہاں ایک اور انداز سے تقلید کی تردید فرمائی ہے او راس کی تقریر کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ دادا کی تقلید کو چھوڑ دیا تھا  اوردلیل کی طرف رجوع کیا تھا اور دوسری یہ کہ تقلید کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں یاتوتقلید حرام ہوگی یا جائز، اگرحرام  مان لیاجائے تو قصہ ختم ہوا اور اگر جائز تسلیم کیا جائے، تو پھر بہتر باپ کی تقلید کرنا چاہیے اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بہترین باپ تھے او ران کی تقلید یہ ہے کہ  تقلید کو چھوڑ کر دلیل کی طرف رجوع کیا جائے تو معلوم ہوا کہ وجوب تقلید، تقلید کی ممانعت کرتا ہے او رجس چیز کا ثبوت اس کی نفی کی طرف لے جائے تو وہ چیز باطل ہوگی ، لہٰذا تقلید باطل ہوئی۔ تفسیرکبیر کا خلاصہ ختم ہوا۔

سورہ ص میں ہے کہ ان کو اس بات کا تعجب ہواکہ انہی میں سے ایک پیغمبر ان کے پاس آگیا، کافروں نےکہا یہ تو جھوٹا جادوگر ہے۔ اس نے اتنے خداؤں کا ایک ہی خدا  بنا دیا،یہ بڑی عجیب بات ہے، سردار اُٹھ کر چلے گئے اور کہنے لگے اُٹھو، اوراپنے معبودوں کی عبادت پرجمے رہو، اس کی یہ ایک سوچی سمجھی سکیم ہے، ہم نے پچھلے دین میں یہ باتیں کبھی نہ سنی تھیں، یہ ایک بناوٹی  چیز معلوم ہوتی ہے‘‘ ان کےتعجب کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ پہلی یہ کہ وہ لوگ نظر و استدلال کے اہل نہیں تھے۔ بلکہ ان کے اوہام محسوسات کے تابع تھے ، جب انہوں نے  مشاہدہ کیا کہ ایک آدمی ایک کثیر تعداد آدمیوں کی حفاظت و نگرانی نہیں کرسکتا ہے تو کہنےلگے کہ ایک خدا اتنی خلقت کی حفاظت کیسےکرسکتا ہوگا۔ ضروری ہے کہ اتنی دنیا کی حفاظت کے لیےبہت سے خدا ہوں اور دوسری چیز یہ تھی کہ ان کے  آباء و اجداداپنی کثرت تعداد اور قوت عقول کےباوجود شرک پر جمے ہوئے تھے، تو کہنےلگے اتنی اقوام اپنی کثرت اور قوت عقول کے باوجود باطل پر کیسے رہ سکتی ہیں اور یہ ایک آدمی کیسے حق پر ہوسکتا ہے، میں کہتا ہوں ، اگر شاہد کے حکم کو غائب پر محمول کیا جائے اور دلیل سے صرف نظر کرلیا جائے تو پہلا شبہ سچا ہوگا اور جب ہم اس کو جھوٹامعلوم کرچکے ہیں تو معلوم ہوا کہ شاہد کے حکم کو غائب پرمحمول کرنادرست نہیں ہے،جب یہ قاعدہ ختم ہوا تو ذات اور صفات خداوندی میں مشبہ کاقول باطل ٹھہرا۔ ذات میں تشبیہ کے قائل کہتے ہیں کہ عالم شہود میں ہر چیز کا ایک جسم ہے ، تو لاسم ہوا کہ غیر مرئی خدا بھی جسم  ہو اور صفات میں مشبہ کہتے ہیں فلاں کام چونکہ ہماری نسبت سے بُرا ہے، تو ضروری ہے کہ خدا سے بھی وہ کام بُرا سمجھاجائے، ہماری اس تقریر سے معلوم ہوا کہ ذات و افعال میں اگر مشبہ کاقول درست تسلیم کرلیا جائے تو کفار کی بات درست ہوگی اور اس کا باطل ہونا جب معلوم ہوچکا ہے تو معلوم ہوا کہ مجمسہ اور معتزلہ کاکلام باطل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر تقلید صحیح ہوتی تو یہ شبہہ بھی درست ہوتا اور جب یہ باطل ٹھہرا تو لازماً تقلید بھی باطل ٹھہری، تفسیرکبیر کامضمون ختم ہوا۔

پس قول امام رازی سے صاف واضح ہواکہ اگر تقلید بلادلیل صحیح اور حق ہو تو مشبہ فرقہ مجمسہ و کلام معتسلہ کا بھی حق ہو، حالانکہ قول  و شبہ ان دونوں فرقوں کاباطل ہوا توتقلید بلا دلیل بھی باطل ہوئی اور خدا تعالیٰ سورہ یونس میں فرماتا ہے۔ قالوا[3] اجئتنا لتلفتناعما وجدنا علیہ ابائنا وتکون لکما الکبریاء فی الارض وما نخن لکما بمؤمنین اعلم ان حاصل ھذا الکلام انہم قالوا لا نترک الدین الذی نحن علیہ لا تاوجدنا ابائنا علیہ فقد تمسکوا بالتقلید و دفعوا الحجۃ الظاہرۃ بمجرد الاصرار انتہی ما فیالکبیر مختصر ا بقدر الحاجۃ۔

اور سورہ ہود میں فرمایا ہے ۔ قالوا[4] یا شعیب اصلوتک تامرک ان نترلہ من یعبد ابائنا اوان نفعل فی اموالنا مانشاء وقد اشار وافیہ الی التمسک بطریقۃ التقلید لانہم استبعد وامنہ ان یامرھم بترک عبادۃ ماکان یعبد اباؤھم یعنی الطریقۃ التی اخذنا ھا من  ابائنا واسلافنا کیف نترکھا وذلک تمسک بمحض التقلید انتہی ما فی التفسیر الکبیر مختصرا بقد رالحاجۃ۔

وایضا سورہ  صافات میں تحت آیت فھم علی اثارھم یھرعون کے امام رازی لکھتے ہیں، والمقصود[5] من الایۃ انہ تعالیٰ علل استحقاتہم للوقوع فی تلک الشدائد کلہا بتقلید الاباء فی الدین و ترک اتباع الدلیل ولولم یوجد فی القرآن ایۃ غیر ہذہ الایۃ فی ذم التقلید لکفی انتہی ما فی التفسیر الکبیر بقد رالحاجۃ۔

 اب تحریر بالاسے  ماہران شریعت غرا پرمخفی نہ رہے کہ جب مذمت و قیاحت تقلید بلادلیل کی کلام ربانی سے قطعاً ثابت ہوئی تو مسلمان دیندار، تقویٰ شعار پراز راہ وجوب محبت و اطاعت خالق اکبر اور رسول اطہر کی ماننا کلام ربانی کا او ربدل وجان تصدیق کرنا اس کا درباب ذم تقلید بلا دلیل کے فرض اعتقادی و عملی ہوا  والا ساتھ شقاق و نفاق کے منسوب  ہوگا اور دائرہ اسلام سے باہر۔ بنا بر اس کے کہ محب مطیع پر اطاعت و تابعداری محبوب مطاع کی واجب ہے، چنانچہ اس پر آیت کریمہ والذین[6] امنوا اشد حباللہ وغیرہا من الایات  شاہد عدل ہیں اور اطیعوا اللہ[7] واطیعوا السول فرض ہے اور حاکم مطلق اللہ تعالیٰ ہے او رہر گاہ حاکم مطلق نے تقلید بلادلیل کو باطل اور مذموم فرمایا تو مخلوق محکوم پر فرمانبرداری حاکم مطلق کی فرض ہوگی اوربے حکم حاکم کوئی امر اپنی طرف سے نکالنا اور اس کونیک سمجھتا او راس پر چلتا  تو نہایت قبیح اور فضیح متصور ہوگا اور مشاقت اور مخالفت حاکم کی لازم ہوگی کیونکہ باذن اللہ نہیں ہے۔ اور قرآن میں فرمایا ہے وما[8] ارسلنا من رسول الالیطاع باذن اللہ ای بامر اللہ لان طاعۃ الرسول وجبت بامراللہ کذا فی المعالم وغیرہ من التفاسیر۔

پس قول بلا دلیل پر تقلید کرنا کسی عالم کی اگرچہ وہ بڑا نامی کامی ہو باطل ہے او رموجب نارضا مندی خدا اور رسول کا ہوگا۔ چنانچہ آیت کریمہ سے اظہر من الشمس ہے او رکور باطن کونہ سوجھے تو آفتاب عالم ماب کاکیا قصور اسی واسطے سارے ال اصول لکھتے ہیں الحاکم[9] ھو الذی صدر الحکم منہ ولا حکم الا من اللہ تعالیٰ کذا فی مسلم الثبوت وھکذا فی تحریر ابن الہمام  اور  حکم خطاب ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جو متعلق ہے ساتھ فعل مکلف کے، چنانچہ مسلم الثبوت کتب اصول میں بہ تفصیل مذکو رہے ، اور دلیل اس پرقرآن شریف ہے۔ ان [10]الحکم الا للہ ولیس لغیر اللہ حکم واجب القبول ولا امر واجب الالتزام بل الحکم والامر والتکلیف لہ تعالیٰ شانہ انتہی ما فی التفسیر الکبیر مختصرا۔

پس آیت کریمہ اور نیز کتب اصول ہر چہار مذہب  سے صاف واضح ہوا کہ تقلید بلا دلیل  حکم الہٰی سے خارج او رمذموم و قبیح ہے جیساکہ اوپر آیت اور تفسیر سے اس کا بیان شافی و کافی ہوچکا تو اب ہرمسلمان طالب حق کو بہت غور و فکر چاہیے کہ مقلدین مقابلین ورطہ دریائے تقلید ناپیدا کنار میں حضت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لغایت حال غرق ہوتےچلے آئے ہیں، پھر بھی مقلدین زمانہ حال کے نصوص قرآنی میں نظر کرکے عبرت نہیں پکڑتے اور خواہ مخواہ  مصداق آیت کریمہ لھم قلوب لا یفقہون بھا الی اخرہ (ان کے ایسے دل ہیں جن سے سمجھتے نہیں ہیں) کے ہوتے ہیں۔ صد حیف کیونکہ تقلید بلا دلیل ایسی پوچ و لچر و محض بے اصل ہے کہ خدا تعالیٰ نے معرفت توحید  و رد شرک و کفر و معرفت رسالت رسول اللہﷺ میں بمجرد تقلید  انبیاء سابقین کے اکتفا نہ کیا، بلکہ اوپر اثبات  صانع و رد شرک و ثبوت نبوت رسول مقبولﷺ کے دلائل قاہرہ گوناگوں جا بجا اپنے کلام میں قائم کیے اور مقلدین متعصبین کو کہ جو دلائل شرعیہ ما انزل اللہ پر اصلا نظر و فکر نہیں کرتے تھے ، طرح طرح کے الزامات دیئے، چنانچہ ماہران قرآن شریف پرہویدا و آشکارا ہے۔

تفسیر کبیر میں آیت ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا الخ کے تحت لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے وجود صانع پر زبردست دلائل قائم کئے اور شریک کے وجود کوباطل ٹھہرایا تو اس کے بعد نبوت محمدیہ کو ثابت کیا اور چونکہ حضور کی نبوت قرآن کے معجزہ ہونے پر موقوف تھی، تو قرآن کے معجزہ ہونے پر دلائل قائم کئے اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے توحید اور نبوت کی معرفت میں تقلید کا طریق اختیار نہیں فرمایا۔

اور جو سادہ لوح عالم زمانہ حال کا یہ قول ہے کہ مجھے تقلید کافی ہے اور دلائل میں غوروخوض کی کچھ ضرورت نہیں، کیونکہ  میں مقلد ہوں او رمقلد کو دلیل سے کیا کام ، سو یہ قول اس کا اس لئے باطل و مردود ہے کہ دین میں ہر مکلف مومن باللہ والیوم الاخر پردلائل کی طرف مہما امکن بقدر استعداد نظر کرنا لا بید و ضرور ہے، چنانچہ صاحب تفسیر کبیر نےسورہ جاثیہ کی آیت کریمہ ’’فبای حدیث بعد اللہ وآیاتہ یؤمنون‘‘کے تحت لکھا ہے کہ جو قرآن کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہو، اس کو  اس کے علاوہ اور کسی چیز سے فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے قول کی تردید کردی جوکہتے ہیں کہ تقلید کافی ہے او ربیان فرمایا کہ عقل مند کے لیے ضروری ہے کہ دلائل میں غور کرے۔

اور امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ اگر تم کو دلیل ملے یعنی اگر دلیل شرعی کتاب اور سنت سے تم پر ظاہر ہو تو اس پر عمل کرو اور میرے قول بلادلیل کو چھوڑ دو، چنانچہ درمختار او رطحطاوی وغیرہ سے واضح ہوتا ہے ۔ قال[11] لا صحابہ ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ انتہی ما فی الدر المختار مختصراً ای ظہرلکم فی المسئلۃ وجہ الدلیل علی غیر ما اقول انتہی ما فی الطحطاوی، اب جو کوئی کہے کہ یہ آیات کفار کے حق میں وارد ہیں، تو وہ بڑا جاہل او ربے وقوف ہے کیونکہ اعتبارعموم لفظ کا ہے نہ خصوص محال کا، جیسا کہ جابجا کتب احادیث و کتب اصول فقہ و استدلالات صحابہ کرام سے واضح ہوتا ہے اور اس بارہ میں صاحب تفسیر اتقان نےبہت کچھ لکھا ہے کما لا یخفی علی الماھر بالشریعۃ الغراء او رکچھ بطلان اس کا تفسیر عزیزی سے لکھا جاتا ہے۔

چہارم آنکہ درین آیت اشارہ است بابطال تقلید بدو طریق اول آنکہ از مقلد باید پرسید کہ ہر کرا تقلید می کنی نزد تومحق است یانے اگر محق بودن او رانمی شناشی، پس باوجود احتمال مبطق بودن اور اچرا اور اتقلید می کنی واگر محق بودن او می شناشی پس بکدام دلیل می شناشی، اگر بتقلید دیگر می شناسی سخن دران خواہد رفت و تسلسل لازم خواہد امد و اگر بہ عقل می شناسی، پس آن راچرا در معرفت حق صرف نہ می کنی وعار تقلید برخود گوارا میداری، طریق دوم آنکہ کسے را کہ تقلید می کنی اگر این مسئلہ را او ہم بہ تقلید دانستہ است ، پس تو واو برابر شدید او راچہ ترجیح ماند کہ تقلید اومی کنی، واگر بدلیل دانستہ است پس تقلید وقتے تمام می شود کہ تم ہم آن مسئلہ رابہمان دلیل بدا فی والامخالف اوباشی نہ مقلدا و وچون توہم آن مسئلہ را بدلیل دانستی تقلید ضائع شد انتہی ما فی التفسیر العزیزی۔

اے مسلمانو!  تم قرآن وغیرہ سےتقلید بلادلیل کی مذمت اور بُرائی تو سن چکے  اب کتاب و سنت پر بدل و جان مستعد اور مستقیم ہوجاؤ کہ تم کو سرکار عالی جاہ سے جنت نعیم یعنی عیش و آرام ابدی کا مکان عنایت ہوگا۔ یاایہا[12] الناس قد جائ کم برہان من ربکم و انزلنا الیکم نورا مبینا الایۃ والبرہان ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وانما سماہ برہانا لان حرفتہ اقامۃ البرہان علی تحقیق الحق و ابطال الباطل والنور المبین ھو القرآن و سماہ نورا لانہ سبب لو قوع نورالایمان فی القلب۔انتہی ما فی الکبیر مختصرا۔

تنبیہ :

رجوع کرنا طرف قاضی یا فتویٰ مفتی کے یا حکم کرنا قاضی کا اوپر شہادت شاہدان عدول کے یا اتباع اولی الامر کا بدلیل شرعی ہے۔ اس کو تقلید اصطلاحی مقلدین نہیں کہتے، کیونکہ  تقلید اصطلاحی یہ ہے کہ گلے میں پتہ ڈال کربلا دلیل ایک شخص کا ہو رہنا اور اسی طرح عمل اوپر روایت راوی حدیث متصل مرفوع کے بدلیل شرعی ہے کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ فلیبلغ الشاھد الغائب المحدیث (جو حاضر ہو وہ غائب کو پہنچا دے) اور جو مفتی یاقاضی سے غلطی سے واقع ہوجائے تو رجوع طرف قرآن و حدیث کے ضرور ہے، جیسےکہ فرمایا خدا تعالیٰ نے فان[13] تنازعتم فی شئ فردوہ الی اللہ والرسول الی اخر الایۃ۔ وما علینا الاالبلاغ۔واللہ اعلم۔

بالصواب فاعتبروا یا اولی الالباب۔ اللھم لک الحمد علی ماو فقتنی لتحریر ھذہ الرسالۃ المسماۃ بواقعۃ الفتوی دافعۃ البلوی سنہ1297 من ہجرۃ خیر البریۃ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ الف الف صلوات و تحیۃ۔ ربناتقبل منا انک انت السمیع العلیم واغفرلناوارحمنا انک علی کل شئ قدیر۔

المؤلف العاجز محمد نذیر حسین عافہ اللہ فی الدارین

سید محمد نذیرحسین



[1]   عمل کے متعلق بغیر کسی دلیل کے کسی کے قول پرعمل کرنے کانام تقلید ہے او ردلیل سے مراد وہی ادلہ اربعہ ہیں جن کی  کتب اصول فقہ حنفیہ میں تصریح کی گئی ہے ، جیسا کہ  ماہران اصول اس کو جانتے ہیں۔

[2]   جیساکہ شریعت محمدیہ کے ماہرین مصنف مزاج پر یہ امر کوئی پوشیدہ نہیں ہے۔

[3]   کہنے لگے کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم کو ہمارے باپ دادا کے دین سے پھیردے او رزمین میں تمہاری سرداری قائم ہوجائے،  سو ہم تم پرایمان لانے والے نہیں ہیں، حاصل  کلام یہ ہے کہ انہوں نےدلائل کے مقابلہ میں اپنےباپ دادا کی تقلید سے تمسک کیا او رکہنےلگے کہ ہم اپنے  باپ دادا کی راہ کو نہیں چھوڑیں گے (خلاصہ تفسیر کبیر)

[4]   کہنے لگے ا ےشعیب کیا تیری نمازیں تجھ کو یہی سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑ دیں او راپنے مال میں حسب خواہش تصرف نہ کریں، اس میں انہوں نے اپنے باپ دادا کی تقلید کی طرف اشارہ کیا ہے اور تقلید آباء کے ترک پر حضرتشعیب پر خوردہ گیری کررہے ہیں کہ ہم اس دین کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں او ریہ محض تقلید سےتمسک ہے۔ (تفسیرکبیر)

[5]   آیت کا مطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مصائب میں مبتلا ہونے کی علت دین میں تقلید آباء اور ترک دلیل کو قرار دیا ہے، اگر قرآن میں اس آیت کے علاوہ اور کوئی آیت نہ ہوئی تو بھی تقلید کی بُرائی کے لیے یہ کافی تھی۔ (خلاصہ تفسیر کبیر) 

[6]   ایماندار اللہ کی محبت میں بڑے پختہ ہیں۔

[7]   اللہ کاکہا مانو او راس کے رسول کا کہا مانو۔

[8]   آپ سے پہلے  جتنےبھی رسول آئے ہیں وہ اسی لیے بھیجے گئے کہ خدا کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے، اس لیے کہ رسول کی اطاعت خدا کے حکم سے واجب ہے۔

[9]   حاکم وہ ہے جو حکم صادر کرے او رحکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔مسلم الثبوت میں ایسا ہی ہے۔

[10]   حکم صر ف اللہ  تعالیٰ کا ہے اور اللہ کے سوا کسی کا حکم واجب القبول او رواجب الالتزام نہیں ہے ، حکم، امر او رکسی کو کسی امر کامکلف بنانا صر ف اللہ کا حق ہے۔ (خلاصہ تفسیر کبیر)

[11]   آپ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا، اگر تم کوکوئی دلیل مل جائے تو اس کے مطابق فتویٰ دیا کرو (خلاصہ در مختار) یعنی اگر کسی مسئلہ میں میرے قول کے خلاف کوئی دلیل مل جائے  تواس کے مطابق فتویٰ دیا کرو۔

[12]  اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیل آئی ہے او رتمہاری طرف روشن  نور نازل فرمایا ہے، دلیل سے مراد آنحضرتﷺ ہیں، اس لیے رکھا گیا کہ آپ کاشیوہ ہی حق کے ثبوت اور باطل کے ابطال میں دلائل قائم کرنا ہے اور قرآن، نور مبین ہے۔ اس لیےکہ وہدل میں نور ایمانی کے داخل ہونے کا سبب ہے۔ (خلاصہ تفسیر کبیر)

[13]   اگر تمہارا کسی بات میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کے پاس لے آؤ۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ