سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) صاحبان زکوٰۃ کے بچے زکوٰۃ کے مال سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔

  • 3386
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1254

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 مسجد یا مدرسہ میں ایک میاں یا ملا رکھ کر گائوں کے بچوں کو تعلیم دلائی جاتی ہے، اور ان میں صاحبابن زکوٰۃ کے بچے بھی تعلیم پائیں تو کیا یہ جائز ہو گا، یا نہیں؟ درآنحالیکہ زکوٰۃ دینے والے حضرات میاں یا ملا کی تنخواہ اپنے عشر و زکوٰۃ کی رقم سے دیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اصحاب اموال کا اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے تعلیم دلانا جن کو وہ تنخواہ اپنے اموال کی زکوٰہ و عشر سے دیتے ہوں درست نہیں۔ ((ھٰذا ھو الراجح عندی الی ھذا الآن)) ایسے علماء دین جو اس آیت کے مصداق ہوں:
  ((اَلَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِیْ الْاَرْضِ یَحْسَبْھُمْ الایة))
یعنی دین کی تعلیم و خدمت کے لیے وقف ہو گئے ہوں، اور فکر معیشت کے لیے وقت نہ نکال سکتے ہوں، ’’مساکین‘‘ میں داخل ہیں، بشرطیکہ انہوں نے تعلیم دین کو حصول زر کا پیشہ نہ بنا لیا ہو، ضرورت اور حاجت سے زیادہ نہ لیتے ہوں، اور کسی حالت میں بھی ساعی وسائل نہ بنتے ہوں، ایسے علماء و دعاۃ مد زکوٰۃ کے بلاشبہ مستحق ہیں، اسی طرح غریب طلبا علوم دینیہ بھی آیت مذکورہ کی رو سے فقراء و مساکین میں داخل ہیں، اور ضروری ہے کہ اس مد سے ان کی خبر گیری کی جائے، رہ گئے علمائ، اغنیاء جو سونے چاندی کے نصاب کے مالک ہیں، یا خوشحال زمیندار ہیں، یا کرایہ کا جائدادوں کے مالک ہیں، اور قرآن و علوم دینیہ کی ترویج اور دعوت و ارشاد ہدایت تبلیغ یا درس و تدریس میں مصروف و مشغول رہتے ہیں، ان کو زکوٰۃ دینی اور خود ان کو زکوٰۃ لینی جائز ہے، یا نہیں؟ اسی طرح مداراس کا اجراء قیام اور مدرسین و ملازمین کی تنخواہ اس مد سے دینی جائز ہے یا نہیں،سو اس میں اختلاف ہے، بعض علماء اہل حدیث اسے جائز و درست کہتے ہیں، ان میں سے بعض نے ان علماء و مدرسین کو ’’سبیل اللہ‘‘ میں داخل سمجھا ہے، ان کا خیال ہے کہ سبیل اللہ کے ذریعہ ایک جامع دعاوی مقصد کا دروازہ کھول دیا ہے، جس میں دین امت کے مصالح کی ساری باتیں آ گئیں۔ مثلاً قرآن اور علوم شرعیہ کی ترویج اور اشاعت مدارس کا اجراء و قیام دعاۃ ومبلغین کا قیام ارسال ہدایت و ارشاد امت کے تمام مفید مسائل۔
اکثر علماء کے خیال میں سبیل اللہ سے مراد صرف مجاہدین و غزاۃ ہیں۔
((کما قال شمس الائمة ابن قدامه فی الشرح الکبیر عل متن المقنع لا خلاف فی انھم الغزاة لان سبیل اللّٰہ عنه الاطلاق ھو الغزوا انتہیٰ))
علامہ سید رشید رضا مصری مرحوم نے مخالفت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
((ھٰذا غیر صحیح بل سبیل اللّٰہ ھو الطریق الوصل الی مرضاته وجنة وھو الاسلام فی جملته وایات الانفاق فی سبیل اللّٰہ تشتمل انواع النفقة المشروعة وما ذا یقول فی اٰیات الصد والاضلال عن سبیل اللّٰہ ولاھجرة فی سبیل اللّٰہ بل لا یصح ان یغسر سبیل اللّٰہ فی اٰیات القتال نفسھا بالغزو لان القتال ھو الغز وانما یکون فی سبیل اللّٰہ اذا ارید به ان تکون کلمة اللّٰہ ھی العلیاء ودینه ھو المسبع فی سبیل اللّٰہ فی الایة یعم الغزو والشرعی وغیرہ من مصالح الاسلام بحسب لفظه العربی ویحتاج التخصیص الی دلیل صحیح انتہیٰ۔ قلت راجح عندی انھم الغزاة خاصة وان کانت کلمة سبیل اللّٰہ یحسب لفظھا العربی عامة تشتمل جمیع مصالح الاسلام العامة تکن المراد فی ایة مصارف الزکوٰة فیما اری واللّٰہ اعلم بمراد کلامه الغزاة خاصة والدلیل علی ھذا الختصیص ما روی احمد و مالک وابو داؤد وابن ماجة وغیرھم عن ابی سعید مرفوعاً لا تحمل الصدقة لغنی الا لخمسة لعامل علیھا اورجل اشتراھا بما له او غارم او غاز فی سبیل اللّٰہ الخ وعلی ھذا افلا یدخل فی سبیل اللّٰہ الاغنیاء من اصحاب الدعوة والارشاد والھدایة والتبلیغ والافتاء والتدریس وغیرھم من المؤظفین فی المدارس الدینیة ولا یدخل فیھا ایضاً تاسیس المعاھد الدینیة وتعمیرھا واعانتھا واقامتھا وغیر ذالک مما یشبه))
اور بعض علماء اہل حدیث نے ایسے اصحاب نصاب کو ’’عاملین‘‘ میں داخل سمجھا ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ عاملین زکوٰۃ کا مصرف ٹھہرانے کی علت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ان عاملین نے ایک کام کو جو مصالح مسلمین سے ہے انجام دیا ہے:
((قال الشوکانی حدیث ابن سعید (عند الشیخین دلیل علی ان عمل الساعی سبب لا ستحقاقه الاجرة کما ان وصف الفقراء والسکنة ھو السبب فی ذلک واذا کان العمل ھو السبب اقتضٰی قیاس قواعد الشرع ان الماخوذ فی مقابلة اجرة))
اسلامی حکومت کے اور عاملین کو اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر زکوٰۃ کا مصرف نہیں ٹھہرایا ہے، لیکن روایات حدیثیہ سے ثابت ہے کہ عہد نبوت میں جو اشخاص اس قسم کے کاموں کو سرانجام دیتے تھے، ان کو بھی رسول اللہﷺ ان کے کاموں کی اجرت عنایت فرماتے تھے، ابو داؤد میں بریدہ سے مرفوعاً روایت ہے:
((من استعملنا علی انه عمل فرزقنا رزقاً فما اخذ بعد ذلک فھو خلول قال الشوکانی فیه دلیل علی انه لا یحل للعامل زیادة علی ما فرض له من استعملہ وان ما اخذ بعد ذالک وفھو من الغلول وذالک بناء علی انه اجارة ولکنھا فاسدة یلام فیھا اجرة المثل الی اخرما قال)) (نیل الاوطار)
پس حکومت اسلامی کے دیگر عاملین مثلاً قضاۃ وغیرہ بوجہ اشتراک فی العلۃ حکم سعاۃ میں داخل ہیں، اس کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی دیگر عاملین کی اجرت بلکہ خود عالم کی اجرت مال مسلمین سے دیا جانا ثابت ہے، اور انہی وجوہ سے خلف و سلف کی ایک بڑی جماعت اس جانب گئی ہے:
((قال الطبری ذھب الجمھور الیٰ جواز اخذ القاضی الاجرة علی الحکم لکونه یشتغله الحکم من القیام بمصاله (عمدة القاری للعینی) واحتج ابو عبیدة علی جواز ذلک بما فرض اللّٰہ للعاملین علی الصدقة جعل لھم حقا منھا لقیامھم وسعیھم الیٰ قوله وقال ابن المنذر حدیث ابن سعید حجة فی جواز ارزاق القضاة من وجوھما (فتح الباری) وقال القاری فی المرقات فی شرح حدیث وغیرہ جواز اخذ العوض من بیت المال علی العمل العام وان کان فرضاً کا لقضاء والجستر والتدریس بل یجب علی الامام کفایة ھولاء ومن فی معناھم فی بیت المال انتہیٰ (وقال المولوی) عبد الحی لکھنوی فی عمدة الرعایت وکل من فرغ نفسه بعمل من امور المسلمین یستحق علی ذالک رزقاً کالقاضی الخ))
پس ایسا مدرسہ جو مصالح مسلمین پر مشتمل ہے، اس کے مدرسین کو مد زکوٰۃ سے تنخواہ دینی کیوں درست نہیں، ساتھ ہی اس کے اس زمانہ میں مدارس دینیہ کے قیام و بقا کی جو ضرورت ہے، وہ مخفی نہیں، یہ بھی ظاہر ہے کہ تاوقتیکہ مدارس کی امداد مد زکوٰۃ سے نہ ہو گی۔ کوئی مدرسہ چل نہیں سکتا۔ پس جب سائلین صدقات کے ساتھ دوسرے عاملین ملحق ہیں، اور عاملین زکوٰۃ کے لیے بحالت ان کے غنی ہونے کے بھی زکوٰۃ سے اجرت لینی درست ہے، تومد زکوٰۃ سے مدرسین کو زکوٰۃ معین وغیرہ معین دونوں طرح لینا ان کے غنی ہونے کی صورت میں بھی جائز اور درست ہو گا جیسا کہ حضرت ابو بکر کی تنخواہ کے واقعہ سے ثابت ہے:
((اخرج ابن سعد عن میمون قال لما استخلف ابو بکر جعلوا له الفین فقال زید ولی فان لی عیالاً وقلا شغلمو فی عن التجارة فزاددہ خمس مائة (تاریخ الخلفاء))
علمائے حنفیہ کے نزدیک مد زکوٰۃ سے مدرسین و ملازمین مدرسہ کو بصورت ان کے غنی ہونے کے تنخواہ نہیں ادا کی جا سکتی، اور نہ ان کے لیے لینا جائز ہے، وہ کہتے ہیں، زکوٰۃ ایک فریضہ الٰہی ہے، جس کی ذمہ داری مالک نصاب پر ہوتی ہے، اور چونکہ وہ حج روزہ نماز کی طرح ایک عبادت ہے، اسی لیے مالک نصاب کو مقررہ شروط و قیود کا لحاظ رکھتے ہوئے مال کا ایک معین حصہ اس کے مصارف میں بطور تملیک اس طرح ادا کرنا ضروری ہے، کہ اس کی ادائیگی میں بجز امتثال امر الٰہی شخص مؤدی الیہ سے کسی قسم کی کوئی غرض حصول نفع کی خاطر نہ ہو (تنویر الابصار) اس لیے وہ ان لوگوں پر بھی اس کو صرف نہیں کر سکتا کہ جن کے دینے میں حصول نفع کا احتمال ہو:
((کما قال فی رد المختارفلا یدفع لا صله ای وان علا ولغرعة ای وان سفل وکذا الزوجته وزوجھا وبدہ دم کلته لانه بالدنع الیھم لم تنقطع المنفعة عن الملک ای المزکی من کل وجه))
اور اسی بنا پر بھی اس کا صرف کرنا جائز نہیں۔ (رد المختارص۷۷ج۱) معلوم ہوا کہ مدرسین کی تنخواہ مد زکوٰۃ سے نہیں ادا کی جا سکتی کہ وہ معاوضہ ہے، ان کے عمل کا اور زکوٰۃ میں معاوضہ مقصود نہیں ہوتا، حنفیہ کہتے ہیں کہ عاملین صدقات کے ساتھ اغنیاء مدرسین کو ملحق کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ان کو جو کچھ ملتا ہے، وہ بطریق عمالہ ہے، اور چونکہ یہ عمالہ بقدر کفاف یعنی ان کے اور ان کے اعوان کی ضرورت اور حاجت کے مطابق دیا جاتا ہے، اس لیے اس کو اجرت و معاوضہ سمجھنا غلط ہے، کیونکہ وہ مقدار جو س کو اور اس کے اعوان کو کافی ہو سکے، وہ مجہول اور غیر معلوم ہو، اور احد العوضین کی جہالت جواز جادہ سے مانع ہے، پس معلوم ہوا کہ عامل صدقہ کا استحقاق بطور اجرت و معاوضہ کے نہیں ہے، بلکہ بطریق کفایہ ہے، بنا برین مدرسین و ملازمین مدرسہ کو عاملین صدقات کے ساتھ ملحق کرنا غلط ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ دیگر عاملین کے عمالہ سے جو ان کو بیت المال سے ملتا ہے، مدرسین کے مد زکوٰۃ سے تنخواہ دینے کے جواز پر استدلال صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ بیت المال دراصل اسلامی خزانہ کا نام ہے، جس کے مختلف شعبے ہوتے تھے، اور ہر شعبے کے مصارف جدا گانہ ہوتے ہیں، مثلاً ایک شعبہ بیت الخمس کا تھا، جس میں جنس غنائم وغیرہ جمع ہوتے تھے، اور اس کو آیت  {وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ … الخ} کے تحت صرف کیا جاتا تھا، دوسرا شعبہ بیت الصدقات تھا، جس میں عشر و زکوٰۃ فطرہ کے اموال جمع ہوتے تھے، اور اس کو مصار ف منصوصہ ثمانیہ میں صرف کیاجا تا تھا، تیسرا شعبہ خراج الارض والجزیہ تھا، جس میں زمینوں کا خراج اور جزیہ وغیرہ کا مال جمع رہتا۔ اس شعبہ سے قاضی مفتی علماء کرام کو بقدر کفاف ملتا تھا، چوتھا شعبہ لاوارث لوگوں کے ترکہ اور لقطات کا تھا، جس کو ضوائع کہتے ہیں، اس سے عام مصالح مسلمین میں امداد ملتی تھی (عالمگیری) پس یہ ثابت کر کے علماء و قضاۃ اور عمال کو بیت المال سے تنخواہ ملتی تھی، یہ ثابت کرنا مد زکوٰۃ سے مدرسین تنخواہیں پا سکتے ہیں، صحیح نہیں۔ الی آخرہ۔
(فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۲۰) (املاہ عبید اللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس مدرسہ دارالحدیث الرحمانیہ دہلی)
توضیح:… ان سب عبارتوں کا جواب قاضی محمد سلیمان منصور پوری کے مضمون میں دیکھیں۔ (سعیدی)

فتاویٰ علمائے حدیث

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ