سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) مال زکوٰۃ اور مذہبی مدرسے ۔

  • 3344
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1933

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں، علماء کرام و ماہر فرقان اس مسئلہ میں کہ ایک مدرسہ اسلامیہ اخروی فائدہ کے لیے جاری کیا گیا ہے، جس میں قرآن و حدیث نبوی اور دینیات پڑھایا جاتا ہے، اور آمدنی فقط زکوٰۃ و صدقۃ الفطر و قربانی کی کھالیں، مہتمم مدرستہ لوگوں سے لیتا ہے، (تاکہ غریب طلبہ و مساکین کے لیے اکل و شرب و لباس و دیگر ضروریات مدرسہ میں لگائے) جائز ہے یا نہیں؟ ایک شخص اے حرام کہتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  وبا اللّٰہِ التوفیق۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، ط الحمد بولیه والصلوة علی اھلھا۔ مال زکوٰۃ و صدقہ الفطر و جلود اضاحی طلبہ کی خوراک و لباس وکتب میں صرف کرنا حسب الارشاد:﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء﴾ بلا اختلاف جائز ہے، اور بناء مدارس و مساجد میں صرف کرنا نیز جائز ہے،
((لان قوله تعالیٰ فی سبیل اللّٰہ عام فی الکل فلہٰذہ المعنی نقل القفال فی تفسیرہ عن بعض الفقہاء انہم اجازوا صرف الصدقات الیٰ جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتی او بناء الحصون وعمارة المساجد انتہیٰ ہذا کہٗ فی الکبیر للرازی رحمة اللّٰہ علیه تحت آیة الصدقات))
رہا مہتمم و منتظم مدرسہ اگر وہ بھی فقیر و محتاج ہے، تو لا ریب مستحقو زکوٰۃ ہے، غنی ہے تو زکوٰۃ کا حق دار نہیں، ہاں مہتمم اگر اغنیاء سے مال زکوٰۃ اپنی جدوجہد سے خود فراہم کرتا ہے، گردو نواع میں دورہ کرتا ہے، سفر کی صعوبت و تکلیف برداشت کرتا ہے۔ تو بصیغہ  وَالْعَاملِیْنَ عَلَیْہَا بَقدر اجرت معروفہ مال زکوٰۃ سے مشاہرہ حاصل کر سکتا ہے۔
((فقیرا کان او اغنیا کذا فی جامع البیان وفی جامع البخاری ویذکر عن ابن عباس یعتق من زکوٰة ماله ویعطی فی الحج وقال الحسن ان اشتری اباہٗ من الزکوٰة جاز ثم تلا انما الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء الایة فی ایہا اعطیت اجزات))
مذکورۃ الصدر اقوال و روایات سے ثابت ہوتا ہے نہ کہ مال زکوٰۃ طلبہ کی خوراک پوشاک پر صرف کرنا بہرحال جائز بلکہ مستحسن ہے اب کسی کے اقوال چنیں و چناں کی کوئی حقیقت نہیں ایسے شخص کو بدظنی و بدگمانی سے اجتناب پرہیز کرنا ضروری ہے۔
((هذا ما ظہر لی والحق عند اللّٰہ العلیم والکریم وہاانا العبد القصوری المدعوا بحمد حیات تجاوز اللّٰہ تعالیٰ عن تقصیراته))
نمبر۱:  الجواب صحیحٌ والمجیب مصیب: مولانا عبد القدیر عفاء اللہ عنہ مدرس مدرسہ رحمانیہ کہنہ
نمبر۲:  الجواب صوابٌ:  (مولانا) محمد مدرس مدرسہ محمدیہ عربیہ و اڈیٹر اخبار محمدی اجمیری درازہ دہلی
نمبر۳:  مذکوہر بالا فتویٰ نہایت صحیح ہے۔ مولانا شیر محمد خان صوفی مہتمم مدرسہ رحمانیہ و مبلغ جمیعۃ مرکزیہ تبلیغ الاسلام انبالہ۔
نمبر۴: الجواب المذکور صحیح: (مولانا) غلام اکبر عفی اللہ عنہ کہلوی
نمبر۵: فتویٰ مذکورہ بالا ازروئے دلائل کے بہت صحیح ہے۔ چنانچہ کتب تفاسیر و شروح احادیث کی عبارت درج ذیل ہے۔ 
((قوله لِلْفُقَرَاءِ وهم فقراء المہاجرین کانو انحوار بعمائته رجل لم یکن لہم بالمدینة مساکین ولا عشائر وکانوا یأدون الیٰ صفتة فی المسجد یتعلمون القرآن باللیل ویرضخون النویٰ بالنہار وکانوا یخرجون فی کل سریته یبعثہا رسول اللّٰہ ﷺ وہم اصحاب الصفة فحث اللّٰہ تعالیٰ الناس علی مواساتہم الخ))
(خازن، ص ۲۲۷ جلد ۱  س ۲۴۹ مطبوعه مصر)
((قوله دو العامل علیھا والحدیث وافاد حدیث الباب حلہا للعامل علیھا وان کان غنیاً لانه یاخذ اجرہٗ علیٰ عمله لا لفقرہ وکذالک من اشترا ہا بماله فانہا قد وافقت مصرفہا وصارت ملکاً له فاذا باعہا فقد باع ما لیس بزکوٰة حین البیع بل ما هو ملک له وکذالک الغارم تحل له وان کان غنیاً وکذالک الغازی یحل له ان تیجہز من الزکوٰة وان کان غنیاً لا نه ساع فی سبیل اللّٰہ قال الشارع ویلحق به من کان قائماً بمصلحة عامة من مصالح المسلمین کالقضاء والافتاء والتدریس وان کان غنیاً))
((وادخل ابو عبید من کان فی مصلحة عامة فی العاملین واشار الیه البخاری حیث قال (باب رزق الحاکم والعاملین علیہا) واراد بالزرق ما یزرقه الامام من بیت المال لم یقول بمصالح المسلمین کا القضاء والفتیاء والتدریس، فله الاخذ من الزکوٰة فیما یقوم به مدة القیام بالمصلحة وان کان غنیاً))
((قال الطبری انه ذهب الجمہور الیٰ جواز اخذ القاضی الا جرة علی الحکم لانه یشغله الحکم عن القیام بمصالحه غیر ان طائفة من السلف کرهو اذا فک ولم کرموہٗ وقالت طائفة اخذ الرزق علی القضاء ان کانت جہة الاخذ من الحلال کان جائزاً اجماعاً ومن ترکه فانما ترکه فانما ترکه تورعاً الخ ص ۲۰۰ج۴ سبل السلام) وعن ام عطیة الانصاریة قالت دخل النبی ﷺ علی عائشة فقال ہل عندکم شئی فقالت لا الا شئی بعثت به الینا نسیبة من الشاة التی البعث لہا من الصدقة فقال انہا قد بلغت محلہا) وعن انس رضی اللّٰہ عنه ان النبی ﷺ اتی بلحم تصدق به علی بریرة فقال هو علیہا صدقة وهولنا هدیة الحدیث ص ۵۵ جلد ۶ فتح الباری))

پس دلائل مذکورہ و اقوال فقہاء و محدثین سے یہ امر واضح طور سے ثابت ہو گیا کہ مال زکوٰۃ و صدقۃ الفطر وغیرہ جب محل اپنے میں پہنچ جاتا ہے، تو ہ مال حکم زکوٰۃ میں سے نکل کر مال مملوک کا حکم رکھتا ہے، جیسا کہ بخاری کی حدیث بریرہ سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک روز گھر میں آ کر عائشہ رضی اللہ عنہ سے کوئی کھانے کی چیز دریافت کی تو جواب دیا کہ نہیں ہے سوائے اس گوشت کے جو بریرہ کو زکوٰۃ کی بکری کا بھیجا گیا ہے، تب آپ نے فرمایا کہ یہ صدقہ بریرہ پر زکوٰۃ ہے، اور ہمارے لیے اس گوشت کا کھانا بطور تحفہ ہے۔
الغرض مال زکوٰۃ و صدقۃ الفطر وغیرہ دینی علم پڑھنے والوں پر مدرسوں میں خرچ کرنا جائز بلکہ افضل ہے۔ پس بعد از تملیک مال زکوٰۃ سے تعمیر دینی مدارس وغیرہ بھی جائز ہے۔
(( هذا ما ارشد واتضح لی من الکتاب والسنة وایضاح الصدق والمہدیٰ علی الانسان من اللہ ذی الفضل والاحسان))
(عبد الرحمن حنفی بری)
حنفیہ کے نزدیک اموال زکوٰۃ کے خرچ کرنے میں تملیک بغیر عوض ضروری ہے پس اموال زکوٰۃ طلبہ مساکین کے لباس و خوراک و کتب وغیرہ کے صر ف میں تملیکاً خرچ کرنا بالاتفاق جائز ہے، البتہ بناء مدرسہ یا تنخواہ مدرسین میں براہ راست خرچ کرنا حنفیہ کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ لیکن مہتمم اگر انہیں روپیہ کی کسی مسکین سے تملیک کر کے خرچ کر لے۔ تو پھر حنفیہ کے نزدیک بھی جائز ہو گا۔ ہاں خود مہتمم اگر اپنی تنخواہ میں مال زکوٰۃ لے تو اس کو بحیثیت عامل ہونے کے جائز ہے ، اگرچہ غنی ہو اگر خود مسکین ہو صاحب نصاب نہ ہو تو اس کی تملیک بھی اہل زکوٰۃ کی طرف سے جائز ہو گی اور پھر یہ روپیہ بناء مدرسہ تنخواہ مدرسین میں بھی صرف کرنا جائز ہو گا ۔ تعلیم دینی کے بقا کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔
(مولانا) محمد عبد الرحمن تغمدہ بالعفو والغفر ان الحنیفی المحمدی مذہباً وابدیٰ وطنا ۲۶ ذیقعد ۴۸۵ھ
مولانا مفتی محمد کفایت اللہ غفرلہٗ مدرسہ امینہ دہلی مہر درسہ
الجواب صحیح وحق والحق ان یتبع: محمد میاں محمد حنفی عنہ مدرس مدرسۃ العلوم المعروف بمدرسہ حسین بخش دہلی
الجواب صحیح: مولوی عبد القدیر مدرس مدرسہ ریاض العلوم محلہ مچھلی والا دہلی۔
جواب درست ہے: مولانا عبد الرحمن عفی عنہ مدرس فتح پوری دہلی
ہذا الجواب صحیح: مولانا محمد شفیع عفی عنہ مدرس مدرسہ مولوی عبد الرب دہلی۔
ہذا جواب صحیح: مولانا عبد الشکور دیوبندی عفی عنہ دہلی
الجواب صحیح: مولانا ضیاء الحق عفی عنہٗ مدرسہ امینیہ دہلی
ہذا جواب صحیح: مولانا عبد الشکور دیو بندی عفی عنہ دہلی
الجواب صحیح: مولانا ضیاء الحق عفی عنہٗ مدرسہ امینیہ دہلی
الجواب صحیح: مولانا سکندر الدین عفی عنہ دہلی
اموال زکوٰۃ طلبہ مسکین کی خوراک و لباس میں بطریق تملیک درست ہے البتہ تنخواہوں میں درست نہیں نہ مدرسین کی تنخواہ میں نہ مہتمم مال کی تنخواہ میں۔ البتہ بعد تملیک درست ہو گا۔ واللہ اعلم۔
مولانا ضیاء اللہ عفی عنہ مفتی مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور۔ما قال مفتی محمد کفایت اللہ صاحب حق صحیح صریح۔ (مولانا) مسعود احمد عفی عنہ ۲۳۴۸ھ دارلعلوم: دیوبند
ہذا الجواب صحیح: مولانا عبد الوہاب عفی عنہ حنفی مدرسہ مولوی عبد الوہوب دہلی۔ جواب صحیح ہے صرف تنخواہ مہتمم مال زکوٰۃ سے محل تامل ہے۔ مولانا اشفاق الرحمن مدرس فتح پوری دہلی
الجواب صحیح: مولانا عبد اللہ مدرس مدرسہ ریاض العلوم مچھلی والا دہلی۔ الجواب صحیح: مولانا محمد حسین عفی عنہ مدرس مدرسہ نعمانیہ حنفی دہلی
الجواب صحیح مولانا محمد عبد المالک عفی عنہ حنفی مدرس مدرسہ نعمانیہ دہلی۔ الجواب صحیح الصواب: مولانا شاہ محمد الطاف الرحمان فاروقی حنفی بانی مدرستہ نعمانیہ دہلی
الجواب صحیح مولانا سید عبد المجید مہتمم مدرسہ نعمانیہ حنفیہ عربیہ مہر مدرسہ ہذا۔ الجواب صحیح: مولانا عبد الجلیل مدرس مدرسہ نعمانیہ، دہلی
الجواب صحیح: مولانا محمد اسحاق عفی عنہ حنفی مدرس مدرسہ حسینہ دہلی۔ الجواب صحیح: مولانا عبد الغفار مہتمم مدرسہ یعقوبیہ دہلی
الجواب لا خیر صحیح: مولانا محمد یحییٰ عفی عنہ حنفی المذہب مدرس مدرسہ حسینیہ دہلی۔ مولیٰنا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کا جواب صحیح ہے۔ مولیٰنا محمد شرف اللہ المدرس مدرسہ شاہی فتح پوری دہلی
مفتی کفایت اللہ صاحب کا جواب ماصواب ہے۔ مولیٰنا سلطان محمود صاحب صدر مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی۔
مفتی کفا یت اللہ صاحب کا جواب صحیح ہے۔ حررہ علم الدین حصاروی سوزی ہجرانوی
طلبہ مساکین کی خوراک و لباس میں زر زکوٰہ و صدقۃ الفطر بغیر تملیک کے جائز ہے البتہ تنخواہ مدرسین و کفن میت و بناء مسجد و مدارس میں بغیر تملیک جائز نہیں، بعد تملیک کے جائز ہے مولانا نور الحسن عفی عنہ مدرس مدرسہ حسین بخش دہلی حضرت مولانا مولوی کفایت اللہ صاحب مہتمم و مدرس اول مدرسہ امینہ مد ظلہٗ نے جو جواب تحریر فرمایا ہے یہی صحیح ہے اس جواب میں جن حضرات نے تملیک کی شرط کو تکلف کہا ہے یا غیر ضروری قرار دیا ہے وہ مسلک حنفیہ کے مخالف ہیں۔
مولانا محمد اعزاز علی مدرس دارالعلوم دیوبند
قربانی کی کھا ل بجنسہٖ طالب علم کی ملک کر دی جائے تو اب اس کو اختیار ہے کہ اس کو بیچ کر استعمال کرے، یا اس کو بجنسہٖ استعمال کرے اور جب اس کو طالب علم کی ملک کر دیا گیا تو اس کے بعد مہتمم مدرسہ کا اس کھال کو ا س سے مدرسہ کے لیے لینا درست نہیں، کیونکہ وہ خوشی سے نہ دے گا۔ محض شرم وحیا سے دے گا اور حدیث میں ہے  ((الا لا یحل ما ل امرء مسلم الا بطیب نفس منه)) اور زکوٰۃ و صدقہ فطر و قربانی کی کھال کا مصرف سب سے بہتر طلبہ علم دین ہیں بشرطیکہ اہل قرابت میں کوئی مصرف نہ ہو یا ہو اور ان کی امداد کی زیادہ محتاج نہ ہو ورنہ قربت اولیٰ ہے۔ اور جو شخص زکوٰۃ و صدقہ کے صرف کرنے کو طلبہ پر حرام کہے وہ غلط کہتا ہے اس کے پاس اس قول کی کوئی دلیل نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
مولانا محمد ظفر احمد منجانب مفتی مولانا شاہ محمد اشرف علی حکیم الامت تھانہ بھون خانقاہ امدادیہ ضلع مظفر نگریکم ذی الحجہ ۱۳۲۸ھ
جواب:… مذکورہ بالا مطابق قرآن و حدیث اور فقہ مجتہدین کے نہایت صحیح ہے اور انکار کرنا اور لوگوں کے دلوں میں خلل ڈالنا کار خیر میں شیطانیت اور گمراہی ہے۔
مولانا مولوی عبد الرزاق عفی عن کان اللہ لہٗ صدر مدرس مدرسہ حنفیہ ریاض العلوم شہر دہلی (مہر مدرسہ ریاض العلوم دہلی)
جواب:… مجیب اول کا صحیح ہے۔ تملیک کی شرط قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت نہیں اور یہی مسلک اہل حدیث کا ہے۔ ہاں احناف کے نزدیک شرط ہے سو مفتی صاحب کے جواب سے اس کی تطبیق و توجیہہ ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ مدرسہ میں زکوٰۃ کا صرف کرنا بلا شبہ جائز ہے۔ جو بوجہ وسوسہ منع کرے وہ بے خبر ہے اس کی پروانہ کی جائے۔
(مولانا) ابو سعید محمد شرف الدین صاحب صدر مدرس مدرسہ میاں صاحب مرحوم دہلی۔
بے شک مجیب اول کا جواب مطابق قرآن و حدیث کے ہے، اسی کو درست جاننا چاہیے باقی سب تکلفات ہیں مال زکوٰۃ جملہ امو رخیر میں صرف ہو سکتا ہے فی سبیل اللہ آیت قرآنی کا عام ہے اس کا مخصص کوئی آیت یا حدیث نہیں لہٰذا مدرس دینیہ کا جراء مال زکوٰۃ سے کیا جائے اور طلبا و اساتذہ پر بے تائل خرچ کیا جائے۔ شخص مذکور فی السوال مفسد معلوم ہوتا ہے۔ اس کے دھوکے سے لوگوں کو بچنا چاہیے۔ واللہ اعلم۔
(مولانا) ابو زبیر محمد یونس غفرلہء مدرس مدرسہ میاں صاحب دہلی
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہٗ ونصلی علی رسوله الکریم۔ اما بعد!
اموال زکوٰۃ و صدقہ فطر کے قربانی کی کھال و صدقات نفلی ہر ایک کو مدارس دینیہ و کتب دینیہ و تجہیز موتی و قبور وغیرہ امور خیر میں صرف کرنا درست ہے۔ طلبہ کو کھانا و ضروریات لباس وغیرہ میں صرف کرنا درست ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو تعمیر مساجد میں صرف کرنا درست ہے۔ اس امر پر یہ آیت دلیل ہے۔
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْل﴾ (التوبه:۶۰)
فی سبیل اللہ عام ہے۔ جس سے دین الٰہی و ذکر الٰہی کی ترقی ہو۔ کل وجوہ میں صرف کرنا درست ہے حج و عمرہ کو رسول اللہﷺ نے فی سبیل اللہ فرمایا ہے۔ حج عمرہ بھی اموال زکوٰہ سے کرانا درست ہے اور جو علماء تبلیغ شریعت کرتے ہیں یا درس و تدریس میں مصروف ہیں زکوٰۃ سے ان لوگوں کی خدمت کی جائے درست ہے۔﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآء﴾ میں لام تملیک لینا بے سند ہے۔ لام کے اکیس بائئس معنی آتے ہیں، لام استحقاق کے لیے بھی آتا ہے۔ اور لام بمعنی فی بھی آتا ہے۔ اور لام یہاں کا بھی آتا ہے نہ تملیک۔ حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں۔
((وفی مصیر منه الی ان اللام وفی قوله للفقراء لبیان المصرف لا للتملیک)) (فتح الباری جلد۱ ص ۴۳)
مجیب اول کا جواب صحیح ہے۔ (حررہ مولانا) احمد اللہ غفرلہٗ مدرس مدرسہ دارلحدیث رحمانیہ دہلی ۴۸۔۱۱۔۲۹
خلاصہ:… فتاویٰ علماء دین کا یہ ہے کہ مال زکوٰۃ کے روپے سے اسلامی مدرسہ قائم کرنا اور مسجد وغیرہ تیار کرنا اور طلبہ کی کتابوں اور کپڑے خوراک وغیرہ میں مال زکوٰۃ کا خرچ کرنا جائز ہے طلباء اپنی زکوٰۃ اپنی ملکیت میں لے کر خود صرف کریں یا کوئی مہتمم مدرسہ و صاحب زکوٰہ مال زکوٰۃ کو طلبہ کی طرف سے صرف کرے دونوں طرح زکوٰۃ کا مدرسہ وغیرہ میں مال زکوٰۃ خرچ کرنا جائز ہے طلباء مال زکوٰۃ اپنی ملکیت میں لے کر خود صرف کریں یا کوئی مہتمم مدرسہ و صاحب زکوٰۃ مال زکوٰۃ کو طلبہ کی طرف سے صرف کرے، دونوں طرح زکوٰۃ کا مدرسہ وغیرہ میں صرف کرنا۔ بالاتفاق سب کے نزدیک جائز و درست ہے۔ کہ جیسا کہ حنفی و اہل حدیث کے مفتی علماء نے اپنے مذکورہ بالا افتادوں میں کھلم کھلا اور خلاصہ طور پر لکھ دیا ہے۔ الغرض زکوٰۃ و صدقۃ الفطر وغیرہ کے مال سے مدرسہ بنانا اور طلبہ کی ہر ایک ((لا بُدّ)) ضروریات میں صرف کرنا قرآن و حدیث و فقہ یعنی شریعت سے افضل و بہتر ثابت ہو چکا ہے اور اب جو ہے اب جو شخص اپن جہالت و نادانی کی وجہ سے لوگوں کو کہے کہ مال زکوٰۃ مدرسہ میں طلباء کو دینا یا مال زکوٰۃ سے مدرسہ بنانا حرام و ناجائز ہے۔ وہ جھوٹا اور علم دین سے بے خبر و جاہل ہے۔ اس کو اپنی ہٹ دھرمی و سینہ زوری سے توبہ کر کے خدائے قدوس غفور ورحیم کے دربار عالی میں دست بستہ کھڑے ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی واجب و ضروری ہے۔
نور محمد پنجابی شاگرد مولانا مولوی محمد صاحب مدرس مدرسہ رائیکورٹ ضلع لدھیانہ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 215۔222

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ