سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ عشر ہر ایک جنس میں ہے یا خاص گندم میں ہی ہے۔

  • 3104
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1270

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ عشر ہر ایک جنس میں ہے یا خاص گندم میں ہی ہے؟ مثلاً چنے، باجرہ، جوار، مکئی، کنگنی، چینا، موٹھ، مہہ، توریا، کپاس، کماد یہہر ایک جنس اپنے نصاب کو پہنچ جائے تو عشر ہے یا نہیں، جواب دے کر ثواب لیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ((عن ابی موسی الاشعری ومعاذ ان النبی ﷺ لھما لا تاخذ الصدقة الا من ھذہ الاصناف الاربعة الشعیر والحنطة والزبیب والتمر رواہ الطبرانی والحاکم)) (بلوغ المرام)
’’ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور معاذ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان دونوں کو کہا جو، گیہوں، واکھ و خشک انگور، کھجور کے سوا کسی اور شے سے زکوٰۃ نہ لو۔‘‘
اس حدیث سے بعض نے استدلال کیا ہے، کہ سب جنسوں میں عشر نہیں، بلکہ صرف ان چار میں ہے، صاحب سبل السلام کا بھی یہی خیال ہے، مگر یہ ان کی غلطی ہے، کیونکہ ابن ماجہ میں ذرہ کا بھی ذکر ہے، جس کے معنی مکی اور جوار کے ہیں، اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، جیسے سبل السلام میں حافظ ابن حجر سے نقل کیا ہے، لیکن اس کے بعد سبل السلام میں کہا ہے:
((وفی الباب مراسیل فیھا ذکر الذرة قال البیہقی انه یقوی بعضھا بعضاً))
’’یعنی اس بارے میں کوئی مرسل روایتیں ہیں، جن میں ذرہ کا ذکر ہے، بیہقی کہتے ہیں، یہ ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘
صاحب سبل السلام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں، اگرچہ یہ روایتیں آپس میں ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں، لیکن جس میں چار اشیاء کا ذکر ہے، اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مگر صاحب سبل السلام کا یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ کیونکہ ذرہ والی روایتوں کے علاوہ بھی کئی روایتیں آئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ چار اشیاء میں حصر نہیں، بلوغ المرام میں ہے:
((والدارقطنی عن معاذ قال فاما القضاء والبطیخ والرمان والقصب فقد عفا عنه رسول اللّٰہ ﷺ واسنادہ ضعیف))
’’معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ککڑی، تربور، انار، گنا کا عشر رسول اللہﷺ نے معاف کر دیا ہے، اور اسناد اس کی ضعیف ہیں۔‘‘
ایک حدیث میں ہے: ((لَیْسَ فِی الْخَضْرِواتِ صَدَقَة)) ’’یعنی سبزیوں میں عشر نہیں۔‘‘اس حدیث کو دارقطنی، حاکم، اثرم، ترمذی، ابن عدی نے مختلف سندوں سے روایت کیا ہے، امام شوکانی دراری المضیہ میں اور نﷺاب صدیق حسن صاحب روضۃ الندایہ میں لکھتے ہیں:
((وفی طرق حدیث الخضروات مقال لکنه روی من طرق کثیرة لیشد بعضھا لبعض فینتھض به للاحتیاج)) (ص ۱۱۹ ج۱)
’’یعنی سبزیوں کی حدیث میں اگرچہ گفتگو ہے لیکن ان کی سندیں بہت ہیں، سب مل کر استدلال کے لائق ہو جاتی ہیں، سبل السلام میں ہے:
((وقد ثبت عن علی وعمر موقوفاً وله الرفع))
’’یعنی سبزیوں کی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوف (ان کا قول) روایت کی گئی ہے، لیکن حکم اس کا مرفوع (رسول اللہﷺ کے ارشاد) کا ہے، (کیونکہ اس میں قیاس اجتہاد کو دخل نہیں۔)‘‘
معاذ رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ ککڑی، تربوز، انار، گنے میں رسول اللہﷺ نے عشر معاف کر دیا ہے، اور سبزیوں کی حدیث اور ابن ماجہ کی حدیث جس میں مکی اور جوار کا ذر ہے، ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عشر کو چار میں بند کر دینے سے مقصود سبزیوں کی نفی ہے، جن کا نہ پیمانہ ہوتا ہے، نہ ذخیرہ، چونکہ یمن میں سبزیوں کے علاوہ زیادہ تر یہ چار ہی تھیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے کسی وقت انہی چار میں حصر کر دیا ہو، تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ان کے علاوہ کسی اور جنس میں عشر نہیں، دیکھئے ابو داؤد میں ابیض بن حمال کی حدیث ہے۔
((انه کَلَّمَ رسول اللّٰہ ﷺ فی الصدقة حین وفد علیه فقال یا اَخَاسَبَالَا بُدّ۔ من صدقة فقال انما زرعنا القطن یا رسول اللّٰہ وقد تَبَدَّدَتْ سباً ولم یبق منھم الا قلیل بما رب فصالح الح نبی اللّٰہ ﷺ علیٰ سبعین حلة من قیمة دفابذ المعافوکل سنة عمن لقی من سبا مارب فلم یذالوا یؤدو نھا حتی قبض رسول اللّٰہ ﷺ وان العمال انتقضوا علیھم بعد قبض رسول اللّٰہ ﷺ فیما صالح ابیض بن حمال رسول اللّٰہ فی الحلل السبعین فدد ذلک ابو بکر رضی اللّٰہ عنه علیٰ ما وضعه رسول اللّٰہ ﷺ حتی مات ابو بکر رضی اللّٰہ عنه فلما مات ابو بکر انتقض ذالک وصارت علی الصدقة)) (ابو داؤد فی حکم ارض الیمن ج ۲ ص ۴۲۹)
’’ابیض بن حمال قاصد ہو کر آئے تو رسول اللہﷺسے عشر کی بابت بات کی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عشر ضروری ہے، ابیض بن حمال نے کہا یا رسول اللہ! ہماری زراعت صرف کپاس ہے، ہماری سبا قوم منتشر ہو گئی ہے، تھوڑے سے لوگ مقام مارب میں باقی رہ گئے ہیں، رسول اللہﷺ نے ان لوگوں سے معافر قسم کے کپڑے کی قیمت کے ستر جوڑوں پر صلح کر لی، کہ کپاس کے عشر کے عوض یہ ادا کر دیا کرو، پس ہمیشہ یہ ادا کرتے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ فوت ہوگئے، آپ کی وفات کے بعد عالموں نے یہ صلح توڑ کر کپاس کا عشر لینا شروع کر دیا، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی صلح کے موافق کر دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پھر ٹوٹ کر کپاس کا عشر ہوگیا۔ ‘‘
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ جو چیز ذکٰرہ ہو سکے، اس سے عشر دینا پڑے گا، راجح مذہب یہی ہے۔ (عبد اللہ امر تسری) (تنظیم اہل حدیث یکم رجب المرجب ۱۳۷۹ ھج شمارہ ۲۰ جلد ۱۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 129

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ