سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) جو زمین نہروں سے سیراب ہوتی ہے الخ ۔

  • 3099
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1036

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 جو زمینیں نہروں سے سیراب ہوتی ہیں۔ اور سرکار پانی کا محصول لیتی ہے، آیا ان زمینوں میں عشر ہے یا نصف عشر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ان زمینوں میں عشر واجب ہے، صحیح بخاری میں ہے:
((عن عبد اللّٰہ ابن عمر عن النبی ﷺ قال فیما سقت السماء والعیون او کان عشر یا العشر وما سقی باالنضح نصف العشر))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کھیتی کو بارش یا چشمے پانی پلائیں، یا وہ اپنی جڑوں کے ساتھ زمین سے پانی پئے، اس میں عشر ہے، اور جو اونٹوں وغیرہ سے پلائی جائے، اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ہے۔‘‘
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ شریعت اسلامیہ میں پیداوار اراضی کے باب میں دو(۲) ہی صورتیں رکھی گئی ہیں، نمبر۱: عشر ، نمبر ۲: نصف عشر، عشر تو جب کہ وہ اراضی بارش کے پانی سے چشموں کے پانی سے سیراب کی گئی ہو، یا وہ ارضی عشری ہو۔ نصف عشر جب کہ وہ اراضی بیل وغیرہ کے ذریعے پانی کھینچ کر سیراب کی گئی ہو، اور یہ معلوم ہے کہ چشموں کے پانی سے سیراب کرنے کی یہی صورت ہے کہ ان چشموں سے جد اول کھود کر اراضی مذکورہ کی طرف لے آویں، تاکہ ان کے ذریعے سے چشموں کا پانی اراضی مذکورہ میں پہنچ کر اسے سیراب کرے،ا ور جد اول اگر خود کھودیں، بلکہ مزدوروں سے کھدوائیں تو اس صورت میں کھدوائی ضرور دینی پڑے گی۔
مگر شارع نے اس صورت میں بھی عشر ہی واجب فرمایا ہے، تو ا سے ظاہر ہوا کہ جب اراضی چشموں کے پانی سے سیراب کی جائے تو اگرچہ اس میں کچھ خرچ بھی کرنا پڑے، تب بھی عشر ہی واجب ہوتا ہے، اور جو زمینیں کہ نہروں سے سیراب ہوتی ہیں، اور سرکار پانی کا محصول لیتی ہیں، وہ محصول جد اول کی کھدائی سے زیادہ نہیں، لہٰذا ان زمینوں میں جو نہروں سے سیراب ہوتی ہیں، اور سرکار پانی کا محصول لیتی ہے، عشر واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 126-127

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ