سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) زمین خراجی میں عشر ہے یا نہیں ۔

  • 3097
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1333

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 زمیں خراجی میں عشر ہے یا نہیں، اگر ہے تو کتنا اور کن کن جنسوں میں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 خراجی زمین وہ ہوتی ہے، اور خراج اسے کہتے ہیں، جو مسلمان بادشاہ اپنی کافر رعایا سے لے، لہٰذا ہندوستان میں کوئی زمین خراجی نہیں، جن زمینوں پر سرکاری ٹیکس ہے، ان کی پیداوار پر عشر و نصف عشر فرض ہے، جملہ اقسام کے اناج پر عشر واجب ہے، واللہ اعلم
شرفیہ:… سوال گنے میں عشر ہے یا نہیں۔ الخ اس سوال کے اجوبہ بہت دور تک چلے گئے ہیں، (دس (۱۰) تک اہل حدیث و احناف کے جواب مذکور ہیں، مولانا کا بھی ہے، حتی کہ میرا بھی نقل ہے۔
اجوبہ میں کچھ حصص صحیح بھی ہیں کچھ غلط، تحقیق کا اکثر حصہ پہلے لکھا جا چکا ہے، اب پھر لکھا جاتا ہے کہ بحکم:
﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْض… الایة﴾ (البقرة:۲۶۷)
﴿وَهُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُه وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِه کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْاحَقَّه یَوْمَ حَصَادِہ﴾ (الانعام:۱۴۱)
((وعن جابر رضی اللّٰہ عنه عن النبی ﷺ قال فیما سقت الانھار والغیم العشور وفیھا سقی بالسوانیة نصف العشور)) (راوہ احمد و مسلم والنسائی و ابو داؤد)
((وقال الانھار والعیون وعن ابن عمر رضی اللّٰہ عنه ان النبی ﷺ قال فیما سقت السماء والعیون او کان عشر یا وفیما سقی بالنضح نصف العشر رواہ الجماعة الا مسلما لکن لفظ النسائی و ابو داود و ابن ماجه بعلا بلال عشر یا انتھیٰ نیل الاوطار ص ۱۱۹ ج ۴، کتاب و سنت صحیحه))
کے یہ اولہ زمین کی ہر پیداوار میں عشر یا نصف عشر کے وجوب پر بین دلیل ہیں، تاوقتیکہ کسی صحیح دلیل کسی شے کا استثناء ثابت نہ ہو اور اب تک ثبوت کے صحیح دلیل نہیں ثابت ہوئی، خضر دات کے اولہ سب کے سب معلولۃ ہیں، ایک بھی صحیح نبہیں، نہ مرفوع نہ موقوف : ((کما فی نیل الاوطار والتلخیص وغیرھما وقال الترمذی لیس فی ھذا لیاب عن النبی ﷺ شئی الخ وما یقال انه فیه حدیث ما اخرجه ، الحاکم والبیہقی والطبرانی عن ابی موسٰی ومعاذ حین بعثنا النبی ﷺ الی الیمن یعلمان لانسا مر دینھم فقال لا تاخذ الصدقة الا من ھذہ الاربعة الشعیر والحنطة والزبیب والتمر قال البیہقی رواته ثقات وھو متصل انتہی کذا فی النیل ص ۱۲۱ وقال فی نصب الرایة واما حدیث انما تجب الزکوٰة فی خمسة فکہہلا معمولة وفی متنہا اضطراب ثم ذکر حدیث ابن ماجة والدارقطنی وذکر فیھا من العلة ثم قال ومنھا ما اخرجہ الحاکم فی المستدرک وصحح اسنادہ عن طلحة بن یحییٰ عن ابی بردة عن ابی موسیٰ و معاذ بن جبل حین بعثہما رسول اللّٰہ ﷺ الی الیمن یعلمان الناس امر دینہم لا تأخذ الصدقة الا من ھذہ الاربعة الشعیر الحنطة والزبیب والتمر رواہ البیہقی بلفظ انھما حین بعثا الی الیمن لم یأخذ الصدقة ابن یحییٰ بن طلحة بن عبید اللّٰہ صدوق یخطیء الثانی ابن النعمان صدوق بہم کذا فی التقریب التہذیب))
پس ثابت ہوا کہ اول تو یہ حدیث باعتبار سند کے صحیح نہیں، کہ طلحہ مذکور خطا کا رواہم ہے،دوم یہ کہ اس روایت کا مرفوع ہونا بھی صراحۃً ثابت نہیں، اس میں ہے کہ معاذ اور ابو موسیٰ کا اپنا فعل ہے، نہ کہ رسول اللہﷺ کا حکم تھا، ہو سکتا ہے، کہ ان کا اجتہاد ہو یا اس وقت انہیں چیزوں کی فصل تھی، یہی چیزیں اس وقت موجود تھیں، اور انہوں نے یہی اشیاء وصول کیں، تو اس سے مسئلہ مبحوثہ ثابت نہ ہوا لہٰذا اولہ مذکورہ کی ایسے امور سے تخصیص نہیں ہو سکتی، اور حدیث قال النبی ﷺ: ((لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَة، اَوْسُقٍ من ثَمُوْدٍ لَا حَبِّ صَدَقَة)) (رواہ احمد و مسلم و النسائی ومسلم فی روایۃ من ثمر بالثا ذاتر النقط الثلاث نیل الاوطار ص ۱۲۰ جلد ۴) لفظ حب سے ثابت ہے کہ ہر قسم کے غلہ میں زکوٰۃ صدقہ ہے، یعنی عشر یا نصف عشر ہے، اور ایسے ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ ہر قسم کے پھل آم و انار، سیب سنگترہ امرود وغیرہ میں بھی عشر یا نصف عشر ہے، پس ثابت ہوا کہ اولہ صحیحہ سے پیداوار میں عشر یا نصف ہے، اور خضروات کے اولہ سے کوئی بھی صحیح نہیں، اور قرآن و حدیث صحیحہ مذکورہ کے خلاف بھی ہیں، لہٰذا ان پر عمل باطل اور بفرض صحت بھی تسلیم کیا جائے،تو خضروات سے مراد ساگ پات کدو وغیرہ جو کھانے کے لیے ایک دو کیاری بوئی جائے، یہ مراد ہے، یہ نہیں کہ کھیتوں کے کھیت کئی کئی جگہ ایکڑ یا مربع جس سے ہزار ہا روپیہ کی پیدوار ہو وہ مراد ہو ہر گز نہیں، یہ نقل و عقل دونوں کے خلاف ہے، اور گوبھی، گاجر، مولی، شلجم، چقندر، آلو، شکر قندی، وغیرہ تربوز، خربوزہ سے ہزار ہا روپیہ حاصل ہوتا ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۴۸۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 121-122

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ