سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اگر والد اپنی زندگی میں ہی وراثت تقسیم کردے تو کیا بہنوں کو بھائیوں کے برابر حصہ ملے گا؟

  • 2844
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2440

سوال

مسجد اور مدرسہ کے لیے زمین وقف کرنا (وقف) ہم تین بھائی ہیں،ہماری تین بہنیں ہیں۔ والد صاحب کو فوت ہوئے تقریبا دو عشروں سے زائد کا عرصہ ہوگیا۔ہمارے والد نے ایک شادی پہلے بھی کی تھی ان کے بطن سے دو بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی بہن والد صاحب کی زندگی میں ہی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ان سے چھوٹی بہن کو فوت ہوئے 3سال ہو گئے۔ہم سگے تین بھائی اور ہماری دو بہنیں ہیں۔میں سب سے چھوٹا ہوں، میری ابھی اولاد نہیں ہے۔میرا آپ سے سوال ہے کہ والد صاحب اپنی زندگی میں ہی تقریباً 60کنال زمین ہم تین بھائیوں میں تقسیم کر گئے تھے اور حد بندی کردی تھی کہ یہاں سے آگے سب سے بڑے بھائی کا حصہ ہے ، پھر اس نشان تک اس سے چھوٹے بھائی کا اور اس سے آگے میری وغیرہ۔ابھی بہنوں کا وراثت میں سے حصہ باقی رہتاہے۔براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ اگر میری اولاد نہ ہو (اللہ مجھے صالح اولاد کی نعمت سے نوازے،آمین)تو کیا میں مسجد و مدرسہ کیلئے زمین وقف کرسکتا ہوں؟ اور بہنوں کو کتنا حصہ ملے گا؟کیونکہ میں نے حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ،جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کی تصنیف قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل میں پڑھا ہے کہ اگر والد اپنی زندگی میں ہی وراثت تقسیم کردے تو بہنوں کو بھائیوں کے برابر حصہ ملے گا۔براہ مہربانی،قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان اولاد کو اپنی زندگی میں جو مال دیتا ہے وہ عطیہ اور گفٹ ہوتا ہے،اور اولاد کو گفٹ دیتے وقت ان میں برابری کرنا ضروری ہے جیسا کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کچھ مال دیا تو میری ماں  نے کہا کہ میں اس وقت تک خوش نہیں ہوں گی جب تک آپ (بشیر رضی اللہ عنہ) اس مال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لیں؟ میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو گواہ بنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ (صحيح البخاري، الهبة وفضلها والتحريض عليها: 2587، صحيح مسلم، الهبات: 1623)
کیا تو نے اپنی ساری اولاد کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے؟ (یعنی تو نے سب کویہ مال دیا ہے)تو میرے والد نے کہا : نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ  سے ڈر جاؤ (تقوی اختیار کرو) اور اپنی اولاد کے مابین عدل کرو۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میرے باپ نے مجھ سے وہ گفٹ واپس لے لیا۔
بعض احادیث میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر رضی اللہ عنہ سے کہا:
أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا فِي الْبِرِّ سَوَاءً؟ قَالَ: بَلَى. قَالَ:فَلَا إِذًا(الأدب المفرد:69). (صحيح)
کیا تجھے اچھا نہیں لگتا کہ وہ ( تير ی اولاد) تیرے ساتھ حسن سلوک میں بھی برابر ہوں؟  تو انہوں نے کہا: بالکل، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایسا نہ کر۔
اس لیے آپ کے والد محترم کو چاہیے تھا کہ وہ تمام اولاد کے مابین جائیداد برابری سے تقسیم کرتے۔ چونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا، تو  ان کی وفات کے بعد یہ زمین آپ کے فوت شدہ باپ کا ترکہ  ہو گی، اسے شریعت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
جائیداد کی تقسیم کے لیے آپ کے والد محترم کی وفات کے وقت زندہ ورثاء کی تفصیلات جاننا ضروری ہیں تا کہ تمام وارثوں کا ان کا حق ملے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ باپ کی وفات کے وقت جو وارثین زندہ تھے ان کی تفصیل ویب سائٹ پر سوال کے ذریعےارسال کریں۔ 
یاد رہے! آپ کے والد محترم کی جائیداد سے اس  باپ شریک بہن کو بھی حصہ ملے گا جو والد کی وفات کے تین سال بعد فوت ہو گئی تھی۔
مسجد اور مدرسہ وغیرہ کے لیے زمین وقف کرنا:
اللہ تعالی آپ کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے ۔ انسان صاحب اولاد ہو یا اولاد کی نعمت سے محروم ہو ہر دو حالتوں میں اسلام نے انسان کو زندگی میں اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے سکتا ہے، بلکہ  اس کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اتنا مال اللہ کی راہ میں صدقہ یا گفٹ کرے جس کے بعد اس کا اپنا اور گھر والوں کا گزر بسر آسانی سے ہو سکے، لہذا اگر مسجد یا مدرسہ کے لیے زمین دینے کے بعد آپ کی اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات کسی دوسرے ذریعہ معاش سے آسانی سے پوری ہو سکتی ہیں تو آپ کا یہ زمین وقف کرنا بہت عظیم عمل ہے، یہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے، جب تک اس مسجد یا مدرسہ میں نماز اور قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی رہے گی آپ کو ثواب پہنچتا رہے گا، گویا کہ آپ کے فوت ہو نے کے بعد بھی آپ کی نیکیوں اور حسنات کا سلسلہ منقطع نہیں ہو گا۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَه. (صحيح مسلم، الوصية: 1631)
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں مگر تین (یعنی تین طرح کے اعمال کا ثواب اسے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے): صدقہ جاریہ، علم جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا رہے، نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔


والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ