سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(503) کریڈٹ کارڈ کا استعمال

  • 2788
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2158

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ابوظبی میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں اور یہاں کے بنک اچھی ملازمت کرنے والوں کو کریڈٹ کارڈ دیتے ہیں جن کی سالانہ فیس ہوتی ہے اور بعض بالکل مفت بھی- کریڈٹ کارڈ میں موجود رقم بنک کی ہوتی ہے اور کارڈ ہولڈر کی اس رقم میں کوئی حق نہیں ہوتا- بس ہولڈر اس کارڈ کو خریداری کے لئے استعمال کرسکتا ہے اور بنک کسی بھی وقت اس کارڈ کو کینسل کر سکتا ہے لیکن اکثر کینسل کرتا نہیں- بہرحال بنک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو یہ پیشکش ہوتی ہے کہ اس کارڈ کے ذریعے خریداری کرلو - اور تقریباً ایک ماہ سے لے کر چالیس دن تک وقت دیا جاتا ہے کہ اس مدت کے اندر لگایا ہوا رقم واپس کرلو تو اس استعمال پر کوئی سود یا منافع نہیں ہوگا- البتہ اگر اس دی ہوئی مدت میں استعمال شدہ رقم واپس نہیں کردی گئی تو پھر اس ساری استعمال شدہ رقم پر سود لگائی جاتی ہے- لیکن اگر کوئی وقت پر ادا کریں تو کچھ اضافی چارج یا سود نہیں ہوتی - ابھی سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسلمان اس قسم کے کارڈ رکھ سکتے ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی معاملہ کے حلال و حرام ہونے کا مدار درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم کی واپسی نہ کرسکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام سے سود ادا کروں گا۔ جس طرح سود کا لینا دینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہے، اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ