سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(173) سکول اور کالج وغیرہ کو صدقہ فطر دینا

  • 26386
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 4238

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اپریل کے پرچہ اہل حدیث میں پوچھا گیا کہ موجودہ زمانہ کے اسکول اور کالج میں صدقہ فطر کے مال سے امداد کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب دیا گیا ہے کہ طلباء غریب مسکین ہوں تو جائز ہے۔  سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کہ مصارف بیت المال س اسکول اور کالج خارج ہیں۔ دیگر یہ کہ جن مدارس عربیہ میں خالص قرآن وحدیث ہی کی  تعلیم ہوتی ہو ایسے مدارس عربیہ میں مد بیت المال سے جواز امداد کے لئے مدارس عربیہ کو کھینچ تان کر فی سبیل اللہ میں داخل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر سرکاری اسکول اور کالج میں ماسوائے قرآن وحدیث کے  تعلیم ہوتی ہے۔ وہاں اس مد سے امداد کرنے کاجواز  بالکل فہم ناقص سے بالاتر ہے۔  (قطب الدین راجشاہی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسکول کی امداد اور چیز ہے۔ اور غریب طالب علم کی امداد اور ہے۔ ہمارے فتویٰ کا تعلق غریب طالب علموں کی ضروریات سے ہے۔ ان کو مدد دینا اس آیت کے زیل میں آسکتا ہے۔  إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ﴿٦٠سورة التوبة ۔ باقی رہا ان کا تعلیم حاصل کرکے دنیاوی مشاغل میں لگ جانا اس کی زمہ داری ہم پر نہیں عربی کے بعض طالب علم بعد فراغت شرک وبدعت پھیلانے میں لگ جاتے ہیں۔  ا س کی زمہ داری زکواۃ ہند پر نہیں ہے۔ اس کافرض شروع میں صرف اتنا ہے کہ پہلے وہ دیکھ لیں کہ اس آیت کے مصداق ہیں کہ نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 291

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ