سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) عورت کو ایک ماہ میں دو بار خون آئے تو وہ کیا کرے؟

  • 26218
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 970

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کو ایام (حیض) ایک ماہ میں صرف ایک بار آخر دہے میں آیا کرتے تھے، اب چند روز سے دہے ثانی میں بھی خون آنے لگا، یعنی اب ایک ماہ میں دوبار خون آنے لگا۔ ایسی صورت میں عورت مذکورہ (آخر دہے اور ثانی دہے دونوں میں) نماز چھوڑ دے یا کیا کرے؟ اس کے بارے میں بھی حدیث سے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خونِ حیض اور خونِ استحاضہ میں فرق ہے۔ عورتیں اس فرق کو بیشتر خوب جانتی ہیں۔ صحیح بخاری میں ایک ماہر ذی علم (محمد بن سیرین) کا قول مذکور ہے کہ جب ان سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ عورت حیض گزر جانے کے پانچ دن بعد خون دیکھے تو کیا کرے؟ فرمایا:

"النساء أعلم بذلک" [1]

یعنی عورتیں اس کو خوب جانتی ہیں۔

نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ ایک ماہ میں دو حیض، بلکہ تین حیض بھی آسکتے ہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور قاضی شریح رحمہ اللہ  کا فیصلہ مذکور ہے کہ ایک عورت اور اس کے خاوند میں تکرار تھی۔ طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزری تھی۔ خاوند چاہتا تھا رجعت کرنا اور عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں مجھ کو تین حیض آچکے، اس پر دونوں صاحبوں نے فرمایا:"إن جاء ت ببینۃ من بطانة أھلھا ممن یرضٰی دینہ، أنھا حاضت في شھر ثلاثا، صدقت" [2]

یعنی اگر یہ عورت اپنے گھر کی دیندار معتبر راز دار عورتوں کو گواہی میں پیش کرے کہ اس عورت کو ایک مہینے میں تین بار حیض آیا تو اس کی تصدیق کر لی جائے گی۔

پس صورت مسؤلہ میں اگر دہے ثانی کا خون بھی حیض کا خون ہے تو عورت مذکورہ دونوں میں نماز چھوڑ دے، ورنہ صرف آخر دہے میں نماز چھوڑ دے عادت کے موافق اور دہے ثانی میں نماز پڑھے، لیکن یہ ہر نماز کے وقت تازہ وضو کر لیا کرے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:102

محدث فتویٰ


[1]              صحیح البخاري (۱/ ۱۲۳)

[2]              صحیح البخاري (۱/ ۱۲۳)

صحیح بخاری میں یہ دونوں اثر تعلیقاً مروی ہیں، البتہ امام دارمی (۱/ ۲۳۳) نے اسے موصولاً بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ورجالہ ثقات‘"(فتح الباري: ۱/ ۴۲۵)

نیز دیکھیں: تغلیق التعلیق (۲/ ۱۷۹)

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ