سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(853) قصہ ہاروت و ماروت کی قرآن کی روشنی میں وضاحت

  • 25968
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4557

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قصہ ہاروت و ماروت کی قرآن کی روشنی میں وضاحت فرمائیے۔(سائل)(۱۹ فروری ۱۹۹۹ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ رب العزت نے سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ کے ضمن میں بایں الفاظ بیان فرمایا ہے:

﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ وَما كَفَرَ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هـٰروتَ وَمـٰروتَ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ وَلَبِئسَ ما شَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم لَو كانوا يَعلَمونَ ﴿١٠٢﴾... سورة البقرة

’’اور ان(ہزالیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان علیہ السلام کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان  علیہ السلام نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی(پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔ بعض لوگ ان سے ایسا(جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ۔ اور اللہ کے حکم کے سوا وہ اس(جادو) سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔ اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص اپنی چیزوں(یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا ۔ اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا وہ بری تھی۔ کاش وہ(اس بات کو) جانتے۔‘‘

اس آیت ِ کریمہ میں اس جادو کا بیان ہے جس پر’اَرْذَلُ خَلْقِ اللّٰهِ‘ یہود عامل تھے۔پھر یہ ان اشیاء میں سے ہے جن کو شیاطین نے سلیمان بن داؤد علیہ السلام  کے عہد میں کھڑا تھا۔( تاکہ اللہ کی مخلوق کو ورغلایا اور پھسلایا جا سکے) اور اس کا تعلق اس سے بھی ہے جو کچھ بابل کی سرزمین میں ہاروت اور ماروت پر نازل ہوا تھا۔ ثانی الذکر عہد کے اعتبار سے اوّل الذکر سے متقدم ہے کیونکہ قصہ ہاروت و ماروت بقول ابن اسحاق زمانہ نوح علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ جادو حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود تھا کیونکہ اللہ نے خبر دی ہے کہ قوم نوح علیہ السلام کا دعویٰ مزعومہ تھا کہ یہ( نوح)  علیہ السلام  ساحر ہے۔

اسی طرح جادو قوم فرعون میں بھی پھیلا ہوا تھا۔ یہ سارا کچھ عہد سلیمان سے(بہت) پہلے کا ہے۔ اس آیت سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے سحر و کہانت کی کتابوں کو جمع کرکے اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیا۔ کوئی شیطان کرسی کے نزدیک پھٹک نہیں سکتا تھا۔ جب سلیمان  علیہ السلام اور وہ علماء جن کو اصل معاملہ سے آگاہی تھی، فوت ہوگئے تو شیطان انسانی شکل میں ان کے پاس آیا۔ یہودیوں سے کہا کہ میں آپ کو ایک ایسا خزانہ بتاتا ہوں جو بے مثال اور بے نظیر ہے۔ کہا ہاں بتاؤ! انھوں نے کرسی کے نیچے کھدائی کرکے ان کتابوں کو حاصل کرلیا تو شیطان نے ان سے کہا سلیمان کو انہی کے ذریعہ جن و انس پر کنٹرول حاصل تھا۔ اس واقعہ سے یہ بات عام پھیل گئی کہ سلیمان ساحر تھا۔ جب قرآن نے سلیمان علیہ السلام  کا تذکرہ انبیاء میں کیا تو انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہا: وہ تو جادوگر تھا تو یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر طبری)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں قصۂ ہاروت و ماروت ’’مسند احمد‘‘ میں بسند حسن ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی حدیث میں مروی ہے۔ طبری نے اس واقعہ کے کئی طرق بیان کیے ہیں۔" قال ابن کثیر: وَأَقْرَبُ مَا فِی هَذَا أَنَّهُ مِنْ رِوَایَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ کَعْبِ الْأَحْبَارِ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، کَمَا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی تَفْسِیرِهِ، عَنِ الثَّوْرِیِّ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ کَعْبٍ، قَالَ  ابن کثیر أیضًا ۔ وَرَوَاهُ ابْنُ جَرِیرٍ أَیْضًا ۔حَدَّثَنِی الْمُثَنَّی، حَدَّثَنَا الْمُعَلَی -وَهُوَ ابْنُ أَسَدٍ-حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنِی سَالِمٌ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ یُحَدِّثُ، عَنْ کَعْبِ الْأَحْبَارِ، فَذَکَرَهُ فَهَذَا أَصَحُّ وَأَثْبَتُ إِلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنَ الْإِسْنَادَیْنِ الْمُتَقَدِّمَیْنِ، وَسَالِمٌ أَثْبَتُ فِی أبیه من مولاه نَافِعٍ. فَدَارَ الْحَدِیثُ وَرَجَعَ إِلَی نَقْلِ کَعْبِ الْأَحْبَارِ، عَنْ کُتُبِ بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.(۱۸۴/۱۔التفسیر)" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قصہ کا اصل موجود ہے۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف نے ’’احسن التفاسیر‘‘ (۱۰۹/۱) کے حاشیہ پر فرمایا:  لیکن اس بارے میں درست تحقیق ’’حافظ ابن کثیر‘‘ کی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ اسرائیلی روایت ہے کیونکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے دراصل یہ روایت کعب اخبار سے اخذ کی ہے چنانچہ ایک مسند میں اس کا ذکر بھی ہے … بنابریں زہرہ والی کہانی بے اصل ہے۔(نعیم الحق نعیم) " بخلاف ان لوگوں کے جنھوں نے اس قصہ کو باطل قرار دیا ہے۔ جیسے قاضی عیاض وغیرہ۔

حاصل اس کا یہ ہے کہ اللہ نے بطورِ آزمائش دو فرشتوں میں شہوت و دیعت کردی، پھر ان کو حکم دیا کہ زمین پر قضاء کے فرائض سرانجام دو۔ مدت دراز تک انھوں نے بصورتِ بشر زمین پر عدل و انصاف قائم کیے۔ پھر حسین جمیل عورت پر فریفتہ ہو کر فتنہ میں پڑ گئے۔ اس بنا پر ان کو بطورِ سزا بابل کے کنویں میں الٹا لٹکا دیا گیا۔ ان کی ابتلاء علم سحر کے ذریعے ہی ہوئی۔ جو اس علم تک رسائی چاہتا، ان کا قصد کرتا وہ اس وقت تک کسی کو تعلیم نہ دیتے جب تک اسے ڈراتے اور منع نہ کرلیتے ۔ جب کسی کو اصرار ہوتا تو اس سے گفتگو کرتے اور تعلیم دیتے۔ اس علم کی حقیقت ان پر منکشف تھی۔ لوگ ان سے ان اشیاء کی تعلیم حاصل کرتے جن کی وضاحت قرآن میں ہے۔ (فتح الباری:۱۰/ ۲۲۵)

ترکیب: ﴿مَا تَتْلُوا الشَّیَاطِیْنُ﴾ میں صحیح مسلک یہ ہے کہ ما موصولہ ہے ان لوگوں کا مسلک غلط ہے جنھوں نے اس کو ما نافیہ بنایا ہے کیونکہ نظم کلام اس سے انکاری ہے۔ تَتْلُوا لفظ فعل مضارع ہے لیکن یہ ماضی کی جگہ واقع ہے یہ استعمال کلامِ عرب میں معروف ہے۔ اور  تَتْلُوْا کا معنی منقول ہے۔ اسی بناء پر اس کا ’’عَلٰی‘‘سے تعدیہ ہے۔

﴿وَ مَا کَفَر سُلَیْمَان﴾ کا مَا یقینی طور پر نافیہ ہے۔ اور ﴿وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا﴾میں واؤ عاطفہ ہے۔ا ور یہ ما قبل سے جملہ استدراکیہ ہے۔

﴿یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾اَلنَّاس مفعول اور اَلسِّحْر مفعول ثانی ہے۔ جملہ کَفَرُوْا کے فاعل سے حال ہے۔ اَیْ کَفَرُوْا مُعَلِّمِیْنَ اور وَمَا اُنْزِلَ میں مَا موصولہ محل نصب میں ہے۔ اَلسِّحْرَ پر عطف ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے: یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ یعنی لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے اور اس شئے کی جو دو فرشتوں پر نازل ہوئی تھی اور بِبَابِلَ مَا اُنْزِلَ کے متعلق ہے باء بمعنی فِیْ ہے۔ جمہور کے نزدیکاَلْمَلَکَیْنِ لام کے فتحہ سے ہے۔ بعض نے اس کو کسرہ سے بھی پڑھا ہے۔ ہاروت و ماروت اَلْمَلَکَیْنِ سے بدل ہے جو فتح کے ساتھ ہے یا عطف بیان ہے ۔ یہ تعلیم ہے۔ یہ تعلیم انذاری تھی طلبی نہیں تھی۔

الفاظ کی مزید تشریح:﴿وَ مَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ﴾ کا عطف مَا تَتْلُوْا پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ تابعداری کی انھوں نے اس چیز کی جو پڑھتے تھے۔ شیطان سلیمان علیہ السلام کی بادشاہی میں اور اس چیز کی جو دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل اَلْمَلَکِیْن لام کے کسرہ کے ساتھ قراء ت غیر معروف ہے۔ مشہور لام کے فتحہ سے ہے۔ زیر کی صورت میں معنی یوں ہوا کہ ہاروت و ماروت کے ساتھ جب خواہشات نفسانی لگا دی گئیں تو وہ گویا مرد بن گئے۔ اور جب قاضی بنائے گئے تو اس طرح سے بادشاہ ہو گئے۔ پس دونوں قراء ا ت آپس میں موافق ہوگئیں۔ بعض لوگ وَ مَا اُنْزِلَ عَلَیْ الْمَلَکَیْنِ کے ما کو نفی کابناتے ہیں۔ اور معنی یوں کرتے ہیں کہ نہیں اتاری گئی فرشتوں پر کوئی چیز( جادو سے) اور لفظ بِبَابِلَ کو یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْر سے متعلق بناتے ہیں۔ یعنی شیطان لوگوں کو جادو بابل شہر میں سکھاتے تھے۔ اور ہاروت اور ماروت کو شیاطین سے بدل بناتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہاروت اور ماروت شیطان تھے۔ اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب جادو کفر ہے تو فرشتوں پر کس طرح اتارا جا سکتا ہے۔ اور وہ لوگوں کو کس طرح سکھا سکتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اللہ جس چیز کے ساتھ چاہے ، بندوں کی آزمائش کرے۔ اسی لیے وہ پہلے کہہ دیتے کہ یہ کفر ہے تاکہ کوئی شخص دھوکے میں نہ رہے۔ جب کوئی باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے۔ اور نظم ِ قرآن کے لحاظ سے مَا اُنْزِلَ کے مَا کو نفی کے لیے بنانا صحیح نہیں کیوں کہ اس سے نظم ِ قرآن میں کئی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔

۱۔         بِبَابِلَ کا تعلق اگر بِمَا اُنْزِلَ سے ہو تو پھر ہاروت ماروت کو شیاطین سے بدل بنانا صحیح نہیں کیونکہ شیاطین صیغہ جمع ہے ۔ جب کہ ہاروت ماروت تثنیہ ہے نیز مَلَکَیْنِ سے بدل نہ بنانا تو اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جادو مَلَکَیْنِ پر اتارا گیا ہے لیکن بابل میں نہیں بلکہ کسی اور جگہ۔ اور اگر بِبَابِلَ کا تعلق ﴿وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوْا الشَّیَاطِیْنَ﴾ سے ہو تو وہ بہت دور ہے۔ درمیان میں اور کلام آگیا اس سے عبارت میں خلل پیدا ہوتا ہے۔

۲۔        ہاروت ماروت ظاہر نظم کے لحاظ سے مَلَکَیْنِ سے بدل ہے۔ کیونکہ مَلکَیْنِ تثنیہ ہے اور ہاروت ماروت بھی دو ہیں۔ نیز ہاروت اور ماروت میں قرب بھی ہے۔ ہاروت ماروت کو شیاطین سے بدل بنانا ظاہر نظم کے بالکل خلاف ہے۔ کَمَا تَقَدَّمَ

۳۔        اگر ہاروت و مارت شیطان ہوںتو پھر ان کا تبلیغ کرنا کہ ہم آزمائش میں ہیں، تو کفر نہ کر۔ یہ صحیح نہیں کیونکہ نیکی کی تبلیغ کی توقع شیاطین سے نہیں ہو سکتی۔ پس صحیح معنی وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا کہ  اُنْزِلَ کا تعلق مَا تَتْلُوْا سے ہے اور معنی یوں ہے کہ تابعداری کی انھوں نے اس چیز کی جو وہ پڑھتے تھے۔ شیاطین سلیمان علیہ السلام کے عہد میں اور اس چیز کی جو اتاری گئی دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابل میں۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:581

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ