سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) بلا عذر فوت شدہ نمازوں کی عدم قضا

  • 23995
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 655

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ: جان بوجھ کر نماز قضا کرنے کے بعد قضا کرنے والے سے نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ اس فعل حرام یعنی نماز فوت کرنے کا گناہ اس سے ساقط ہوتا ہے اگرچہ وہ قضا بھی کر لے، اس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے، اس عبارت کا مطلب واضح فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو نماز بلا عذر فوت ہو گئی ہو اس کے قضا کرنے میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک قضا واجب ہے، جبکہ امام داؤد ظاہری، امام ابن حزم اور بعض شافعیہ کا مذہب قضا نہ کرنا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جو بلا عذر جان بوجھ کر قضا کر لے وہ اس نماز کے ترک کرنے میں گنہگار ہے، اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ظاہریہ کا تو واضح ہے، کیونکہ جمہور کے نزدیک قضا کے واجب ہونے پر کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ امام شوکانی نے شرح مختصر میں کہا: مجھے جمہور کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں ملی مگر خثعمیہ کی وہ حدیث جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فدين الله احق ان يقضيٰ (فتح الباری 4/192، مسلم 1/362) (اللہ کا قرض زیادہ لائق ہے کہ اسے پورا کیا جائے) اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اور اس میں عموم ہے جو مصدر مضاف سے مستنبط ہے اور وہ عموم اسباب کو بھی شامل ہے، انتہی۔

غرض کے جمہور کے پاس اس حدیث کے سوا کوئی اور دلیل نہیں اور اہل اصول میں اختلاف ہے کہ وجوب قضا کے لئے وہی دلیل کافی ہے جس سے مقضی کا وجوب نکلتا ہے یا نئی دلیل کی ضرورت ہے جس سے قضا کا وجوب ثابت ہو۔ اور حق تو یہ ہے کہ نئی دلیل ہونی چاہیے کیونکہ قضا کا وجوب تکلیفِ ادا کے علاوہ مستقل تکلیف ہے۔ فتامل ۔۔۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:335

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ