سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) روزے میں انجکشن لگانے کا حکم

  • 23824
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 3769

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزے کی حالت میں مریض کا انجکشن لگوانا یا کان میں دوا ڈالنا جائز ہے۔؟کیا عورتوں کا سرمہ لگانا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہےمثلاًگلو کوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہےعلماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جب کہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیےاس کے استعمال کو جائز قراردیتا ہے۔

اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں۔ تاہم احتیاط کا تقاضہ یہ ہےکہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے  روزے معاف کیے ہیں۔اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہےاور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں ۔اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہوجائے گا۔

رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جب کہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے ۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کی بھی یہی رائے ہے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں بھی تھا ۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

اس کے سلسلے میں ایک حدیث ہے بھی تو وہ بالکل ضعیف حدیث ہے۔   

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

روزہ اور صدقہ الفطر،جلد:1،صفحہ:183

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ