سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) عورتوں کا مسجد میں تراویح ادا کرنا

  • 23819
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1575

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض عورتیں پابندی سے تراویح کی نماز مسجدوں میں جا کرادا کرتی ہیں۔ان میں بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر ہی نکل جاتی ہیں۔ بعض عورتیں مسجدوں میں جا کر اونچی آواز میں باتیں کرتی ہیں۔ کیا ان کا مسجد میں جا کر تراویح پڑھنا واجب ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تراویح کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر اللہ کی طرف سے نہایت عظیم اجرو ثواب ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"(بخاری مسلم)

’’جس نے رمضان میں رات کی نماز یں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔

 عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نماز یں پڑھنا یعنی تراویح پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الایہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دوسرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پرو گرام میں شامل ہوتا ہو یا درس و تدریس کی مجلس ست استفادہ کرتا ہو یا کسی جید قاری کی قرآءت سننی ہو تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جاکر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔کیونکہ اس صورتوں میں نماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر ہے اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انہیں نمازمیں وہ رغبت نہ پیدا ہو جو مسجد میں ہوتی ہے۔

تاہم بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الایہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں۔

"لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ" (مسلم)

’’اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔‘‘

عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً: شوہر ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہو اور انہیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو،وغیرہ۔

اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انہیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کاحکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔

یہاں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انہیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتوں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علی حدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجدمیں سر گوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آوازوں میں باتیں کرتے ہیں۔میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوز کرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے۔’’کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی‘‘

دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازےعورتوں پر بھی ادا کیے ہیں۔ آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہوگئی ہیں جو اس سر زمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد میں بغیر کسی تردو کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انہیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔انہیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں ۔ بہ شرطے کہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

روزہ اور صدقہ الفطر،جلد:1،صفحہ:176

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ