سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) کسی کافر کو زکوۃ کی رقم دینا

  • 23810
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3335

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی کافر یا ملحد کو محض انسانی بنیادوں پر زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اگر وہ مالی تعاون کا محتاج ہو؟ یا کسی فاسق مسلمان شخص کو جو نماز روزے سے لا پروا ہواور حرام کاموں میں ملوث ہو اسے زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟ یا ان لوگوں کو زکوۃ دینا اللہ کی نافرمانی شمار کی جائے گی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص سرے سے اللہ اس کے رسولوں اور یوم آخرت کا منکر ہو تو اسے زکوۃ کی رقم دینی جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تصور کیا جائے گا۔اسے مالی طور پر مستحکم کرنا گویا اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔اسی طرح ہر وہ شخص جو اسلام اور مسلمانوں سے برسر پیکار ہو اور علی الاعلان ان سے دشمنی کی باتیں کرتا ہواسے بھی زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ کیوں نکہ انہیں زکوۃ دینا گویا ان سے موالات اور مواخات قائم کرنا ہے اور اللہ نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔

البتہ وہ ذمی شخص جو مسلم حکومت کی سر پرستی میں ہے بعض فقہاء کے نزدیک محض تالیف قلب کی خاطر اسے زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے۔ لیکن جمہور فقہاء کا قول ہے کہ زکوۃ کی رقم ذمی کو بھی نہیں دی جا سکتی کیونکہ زکوۃ ان ذمیوں سے وصول نہیں کی جاتی ہےاور جب وصول نہیں کی جاتی تو انہیں دی بھی نہیں جاسکتی ہے حدیث میں ہے کہ زکوۃ مسلمان مالداروں سے لی جاتی ہے اور مسلمان غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ البتہ ان ذمیوں کی زکوۃ کے علاوہ دوسرے طریقوں سے مدد کی جا سکتی ہے اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں۔

رہے وہ مسلمان جو فاسق و فاجر ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے اور حرام کام کرتے ہیں تو انہیں زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے بہ شرطے کہ وہ اس رقم کو اللہ کی نا فرمانی کے کاموں میں خرچ نہ کریں اگر وہ اس رقم کو گناہوں کے کاموں میں خرچ کریں مثلاً:شراب پینے میں یا جوا کھیلنے میں تو زکوۃ کی رقم انہیں ہر گز نہیں دی جائے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے اہل بدعت اور اہل فسق و فجور کو زکوۃ کی رقم دینے کے سلسلے میں سوال کیا گیا تو فرمایا:"ہمیں چاہیے کہ ہم ان فقراء مساکین اور دوسرے مستحقین زکوۃ کو تلاش کریں جو اللہ کی شریعت پر قائم ہوں اور نیک مسلمان ہوں۔ رہے وہ لوگ جو فاسق و فاجر ہیں اور اہل بدعت ہیں تووہ سزاؤں کے مستحق ہیں نہ کہ مدد کے۔ وہ شخص جو نماز نہیں پڑھتا ہے اس سے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے گا۔ اگر اس نے نماز پڑھنا شروع کردی تو اسے زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے ورنہ نہیں

محترم استاد الشیخ محمد ابو زہرۃ کی رائے ان سے مختلف ہے۔ وہ گنہگاروں کو بھی زکوۃ دینے کے حق میں ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے۔

1۔زکوۃ والی آیت میں فقراء و مساکین کا لفظ عام ہے۔ اس میں اہل معصیت اور اہل تقوی کے درمیان فرق نہیں ہے۔ اگر ہم غیر مسلمانوں کو تالیف قلب کی خاطر زکوۃ کی رقم دے سکتے ہیں تو فاسق مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ دے سکتے ہیں۔

2۔ہم کسی گنہگار مسلمان کو جو مالی تعاون کا سخت محتاج ہے محض اس کی معصیت کی بنا پر زکوۃ نہیں دیتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے زندہ رہنے کا حق چھین رہے ہیں۔ تلوار سے مارنا اور بھوک سے مارنا دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔

3۔مشکل وقتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مشرکین کی مدد کیا کرتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صلح حدیبیہ کے بعد ابو سفیان کے پاس پانچ سو دینار بھیجے تھے کیوں کہ قبیلہ قریش قحط کا شکار ہو گیا تھا۔

4۔ اہل معصیت کو مالی تعاون نہ دینا بسا اوقات انہیں مزید سر کشی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ استاد محترم محمد ابو زہرۃ کی ان دلیلوں پر کلام کیا جا سکتا ہے۔

1۔ ان کی پہلی دلیل فقرا ومساکین کا عموم ہے۔ اس عموم کی تخصیص اسلام کے اس قاعدہ کلیہ سے ہو سکتی ہے جس کے مطابق اصل معصیت کی ہر ممکنہ زجرو توبیخ ہونی چاہیے اور معصیت میں ان کے تعاون سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ چنانچہ اسی زکوۃ والی آیت میں لفظ "الغارمین "کا بھی استعمال ہے اور وہ بھی بظاہر عام ہے۔ جب کہ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ ان قرض خوروں کو زکوۃ نہیں دی جائے گی جنہوں نے غلط کاموں کے لیے قرض لیا ہو۔

2۔ہم کہاں کہ رہے ہیں کہ گنہگاروں کو بھوک سے مرتا چھوڑدیں۔ زکوۃ کے علاوہ دوسری مددوں سے بھی ان کی مدد کی جا سکتی ہے بلکہ کرنی چاہیے۔

3۔کفار و مشرکین کی صلہ رحمی زکوۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جا سکتی ہے۔

جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیا۔

درج ذیل صورتوں میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے:

1۔ اہل معصیت کی مدد زکوۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جا سکتی ہے ۔

2۔ تالیف قلب کی خاطر اہل معصیت کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے۔

3۔جاں بلب شخص چاہے وہ اہل معصیت ہی کیوں نہ ہو اس کی جان بچانے کے لیے زکوۃ دی جا سکتی ہے:

4۔ اگر یہ یقین ہو کہ اہل معصیت زکوۃ کی رقم کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرے گا تو اسے زکوۃ نہیں دی جائے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ اہل معصیت دو طرح کے ہیں ایک وہ ہیں جو گناہ کرتے ہیں لیکن گناہوں پر شرمندہ بھی ہیں اور اسلام سے ان کا رشتہ باقی بھی ہے۔ ان گنہگاروں کو زکوۃ کی رقم دی جا سکتی ہے۔ البتہ وہ حضرات جو صرف نام کے مسلمان ہوں اور اسلامی احکام و شعائر کا مذاق اڑاتے ہوں تو انہیں زکوۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

زکوۃ اور صدقات،جلد:1،صفحہ:161

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ