سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) عورت کی سربراہی

  • 23765
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1860

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا وہ حدیث صحیح ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

’’لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً‘‘

’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی،جس نے ایک عورت کو اپنا سربراہ مقرر کرلیا‘‘

وہ  حضرات جو عورتوں کی برابری کے قائل ہیں اس حدیث کو نہیں مانتے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث ایک دوسری حدیث سے ٹکراتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے فرمایا:

’’خذوا نصف دينكم عن هذه الحميراء يعني عائشة ‘‘

’’اے لوگو!اپنے دین کی نصف باتیں حمیراء یعنی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے حاصل کرو‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہالت ایک بڑی مصیبت ہے ۔اگر خواہش نفس اس پر مستزاد ہوتو کریلا نیم چڑھا کے مصداق مکمل تباہی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوىٰهُ بِغَيرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ... ﴿٥٠﴾... سورة القصص

’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشوں کی پیروی کرے‘‘

ایسےلوگ جن میں جہالت اور نفسانی خواہشوں کی پیروی دونوں یکجا ہوں کچھ بعید نہیں کہ وہ صحیح حدیث کو ضعیف قراردیں اورضعیف کو صحیح۔

پہلی حدیث جس میں عورت کی سربراہی کو فلاح کے منافی قراردیا گیا ہے بالکل صحیح ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  تک یہ خبر پہنچی کہ فارس والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ مقرر کرلیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی،جس نے کسی عورت کو اپنا سربراہ مقررکرلیا۔یہ حدیث صحیح بخاری،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں درج ہے اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت سربراہی کی حقدار نہیں ہے۔

رہی دوسری حدیث جس میں نصف دین کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے حاصل کرنے کی ہدایت ہے تو اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ نہ اس کی سند معروف ہے اور نہ کسی معتبر حدیث کی کتاب میں اس کی روایت موجود ہے۔البتہ ابن اثیر نے اپنی کتاب"النہایۃ"میں اس کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ بتائے بغیر کہ اس کی روایت کس نے کی ہے۔

یہی تو رہا اس کی سند پر کلام۔اگر اس کے متن اور موضوع پر غور کریں تو عقل اس کوقبول کرنے سے قاصر ہے۔کیوں کہ:

1۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اس بات کی ہدایت کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم نصف دین صرف ایک صحابیہ سے اخذ کریں اور باقی نصف دین بقیہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے۔جن کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں میں ہے اور ان میں سے کتنے ہیں جو علم کے لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے برتر ہیں۔پھر یہ کہ کون سا نصف دین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے اخذ کریں اور کون سا بقیہ نصف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے؟

2۔حدیث میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کےلیے"حمیرا"(ننھی سرخ لڑکی) کالفظ استعمال ہوا ہے،جس میں بیوی کے لیے محبت اور نازنخرے کا عنصر موجود ہے۔عقل اس بات سے انکار کرتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ایسے موقع پر اس لفظ کااستعمال کیا ہو جہاں وہ لوگوں کودین کی اہم بات بتارہے ہوں۔اور واقعہ یہ ہے کہ علماء اسلام نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے نصف دین تو کیا اسکا چوتھائی حصہ بھی نہیں لیا۔کیونکہ تاریخ اس بات پر شاہدہے کہ اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت میں سینکڑوں اور ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  وصحابیات رضوان اللہ عنھن اجمعین  نے حصہ لیا ہے،۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اس سینکڑے کی ایک اکائی ہیں۔

تاریخی حقائق سے ہٹ کر عقل کی کسوٹی پر بھی اگر اس حدیث کو پرکھا جائے تو عقل اسکے منافی ہے۔اگر نصف دین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی تعلیم پر موقوف ہے تو پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جیسے اکابرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اس دین کی تعلیم میں کیا حصہ باقی رہتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی احادیث کی تعداد تو اس سے کہیں کم ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہیں ۔

ہمیں چاہیے کہ شخصیات کے فضائل کے سلسلے میں جو احادیث ہم تک پہنچیں انہیں قبول کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لیں کیوں کہ یہی وہ موضوع ہے جس میں حدیث گھڑنے والوں نے سب سے پہلے حدیث گھڑی۔کسی شخصیت کی محبت وعقیدت میں غلو کرجانے والوں نے فضیلت ثابت کرنے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں  حدیثیں گھڑی ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے وہ کچھ بہت کافی ہے جو سورہ نور میں اور صحیح احادیث میں موجود ہے ۔اس کی چنداں ضرورت نہیں کہ ان کی فضیلت ثابت کرنے کےلیے گھڑی ہوئی حدیثوں کا سہارا لیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

احاديث،جلد:1،صفحہ:53

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ