سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

  • 23718
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 6511

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ان کا جاننا ہر مسلمان شخص پر ضروری ہے تاکہ وہ ان سے اجتناب کرے۔ وہ اشیاء درج ذیل ہیں:

جماع کرنا

اگر روزے کے دوران اپنی بیوی سے جماع کر لے تو اس کا روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس دن کی قضا دینا پڑتی ہے جس دن جماع کیا گیا علاوہ ازیں اس گناہ کا اس پر کفارہ بھی ہے کہ وہ ایک گردن (غلام یا لونڈی ) آزاد کرے۔اگر یہ کام نہ کر سکے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مساکین کو مناسب (علاقے میں رائج ) کھانا کھلائے یا ہر مساکین کو نصف صاع (ایک کلو 50گرام ) کھانا دے۔

منی کا اخراج

بوسہ لینے چھونے باربار دیکھنے یا مشت زنی کے سبب اگر منی خارج ہوگئی تو اس کا روزہ ضائع اور باطل ہو جائے گا جس روزاس نے یہ کام کیا اس سن کی قضا دے گا البتہ اس پر کفارہ نہیں کیونکہ کفارہ جماع کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔[1]

اگر نیند کی حالت میں احتلام ہو گیا تو اس کے ذمے نہ قضا ہے اور نہ کفارہ کیونکہ اس میں اس کا اختیار شامل نہ تھاالبتہ اس پر غسل کرنا فرض ہے۔

قصداً کھانا پینا

قصداً یعنی ارادہ کر کے کھانے پینے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى الَّيلِ ...﴿١٨٧... سورة البقرة

"تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔"[2]

البتہ اگر کسی شخص نے بھول کر کچھ کھاپی لیا تو اس کا روزہ متاثر نہ ہوگا حدیث شریف میں ہے۔

"مَنْ نَسِيَ وهو صائِمٌ فَأكَلَ أو شَرِبَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّما أطْعَمَهُ اللّه وَسَقَاهُ "

"جس کسی نے بھول کر کچھ کھاپی لیا تو وہ اپنا روزہ (جاری رکھ کر) مکمل کرے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔[3]

ناک کے ذریعے سے پیٹ میں پانی وغیرہ پہنچانے (سعوط)سے بھی روزہ فاسد ہو جاتا ہےرگ کے ذریعے سے پیٹ میں غذا پہنچانے (ڈرپ لگوانے )سے یا جسم میں خون پہنچانے سے بھی روزہ فاسد اور ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح غذا کے لیے ٹیکہ بھی روزے کو ختم کر دیتا ہے۔ بیماری وغیرہ کے لیے ٹیکہ لگوانے سے اجتناب کرنا بہتر ہے تاکہ روزہ شک و شبہے سے بھی محفوظ رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"دع ما يريبك إلى ما لا يريبك"

"جس میں تجھے تردو اور شک ہواسے چھوڑ کروہ صورت اختیار کر جس میں تجھے تردو اور شک نہ ہو۔"[4]

سینگی لگوانا اور فصد کروانا

سینگی لگوانے فصد کروانے یا کسی مریض کو دینے کے لیے خون نکلوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے البتہ اگر تجزیہ یا تجربہ کے لیے تھوڑا سا خون نکالا گیا تو روزے پر اس کا اثر نہ ہوگا اور روزہ قائم رہے گا۔اسی طرح اگر کسی ایسی صورت میں بدن سے خون نکل آیا جس سے روزے دار کا اپنا اختیار نہیں بلکہ وہ مجبور ہے تو اس سے بھی روزہ نہ ٹوٹے گا مثلاً: نکسیر کا پھوٹنا کسی زخم سے کون کا نکل آنا یا دانت نکلوانے سے خون کا نکلنا وغیرہ۔

قے آنا:

اگر قصداًاور ارادۃً قے لانے کی صورت پیدا کی گئی تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا البتہ اگر خود بخود قے آگئی تو روزہ قائم رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ – أي : غلبه- فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ"

"جسے خود بخود قے آگئی اس پر روزے کی قضا نہیں اور جس نے قصداً قے کی تو وہ قضا دے۔[5]

روزے دار کو روزے کی حفاظت کرتے ہوئے سرمہ ڈالنے اور آنکھوں میں دوائی کے قطرے وغیرہ ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔[6]

وضو کرتے ہوئے کلی کرتے یا ناک میں پانی چڑھاتے وقت مبالغہ نہ کیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا" 

"(وضو کرتے وقت)ناک میں پانی خوب چڑھاؤ مگر جب تم روزے کی حالت میں ہو(تو ایسامت کرو۔"[7]

اس کی وجہ یہ ہے کہ ناک کے ذریعے سے پانی پیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔

دن کے شروع یا آخر میں مسواک کرنے سے روزے پر کچھ اثر نہیں پڑتا بلکہ روزے دار کے لیے مسواک کرنا مستحب اور پسندیدہ ہے۔

اگر گردوغبار یا مکھی وغیرہ اڑ کر حلق تک پہنچ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا ۔

روزے دار کو جھوٹ ،غیبت ، چغلی ، گالی گلوچ سے بہر صورت بچنا چاہیے۔ اگر اس سے کوئی شخص گالی گلوچ کرے تب بھی وہ(دو مرتبہ )کہہ دے(إني صائم) میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔[8]

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں کھانا پینا چھوڑدینا آسان ہوتا ہے لیکن ان کے لیے جن برے نکمے اور غلیظ اقوال وافعال کے وہ عادی ہوتے ہیں ان کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا بنا بریں بعض سلف صالحین کا قول ہے:"آسان ترین روزہ کھانے پینے کا چھوڑ دینا ہے۔"

ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرے۔ اپنے رب کی عظمت وبزرگی کا خیال رکھے اور یہ ایمان و یقین رکھے کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے مالک کی نگاہ میں ہے نیز روزے کو فاسد اور ضائع کرنے والی اور اس کے ثواب میں کمی کرنے والی چیزوں سے محفوظ رکھنے کی بھر پور کوشش کرے تاکہ اس کا روزہ صحیح اور مقبول ہو۔

روزے دار کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت میں خود کو مشغول رکھے۔کثرت سے نوافل پڑھے سلف صالحین کا یہ انداز تھا کہ جب وہ روزہ رکھتے تو زیادہ سے زیادہ وقت مساجد میں گزارتے اور کہتے اب ہم اپنے روزوں کی حفاظت کریں گے اور کسی کی غیبت نہ کریں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ"

 "جس روزے دار نے حالت روزہ میں جھوٹی باتیں کرنی اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے کوئی سروکار نہیں۔"[9]

اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے کی حالت میں جائز خواہشات کو چھوڑدینے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی قرب اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان چیزوں کو چھوڑتا ہے جو اس کے رب نے ہر حال میں حرام کی ہیں مثلاً:جھوٹ ظلم اور لوگوں کے خون مال اور عزت میں ظلم و زیادتی کرنا وغیرہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الصائِمُ فِي عِبادَةٍ ما لَم يَغتَب مُسلِمًا أَو يُؤذِهِ"

"روزہ دار حالت عبادت میں ہوتا ہے جب تک وہ کسی مسلمان کی غیبت نہیں کرتا یا اسے تکلیف نہیں دیتا۔"[10]

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"ما صام من ظل يأكل لحوم الناس"

"اس نے روزہ نہیں رکھا جو(غیبت کر کے) لوگوں کا گوشت کھاتا ہے۔"[11]

لہٰذا جب روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حالت میں ان اشیاء سے اجتناب کرے جو روزہ نہ رکھنے کی حالت میں جائز ہیں(مثلاً: کھانا پینا جماع کرنا) جو اشیاء ہر حال میں حرام ہیں انھیں ترک کرنا بدرجہ اولی ضروری ہے تاکہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہو جو روزے کا پورا پورا حق ادا کرنے والے ہیں۔

روزے کی قضاکے احکام

جس شخص نے شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا یا توڑدیا یا کسی حرام کام مثلاً:جماع وغیرہ کے ارتکاب سے روزہ فاسد اور ضائع کر لیا تو اس پر قضا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥... سورة البقرة

"اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔"[12]

قضا کی ادائیگی میں جلدی کرنا مستحب ہے تاکہ ذمے داری ختم ہو جائے نیز قضا میں تسلسل قائم کرنا مستحب ہے کیونکہ قضا ادا کے مطابق ہوتی ہے قضا کو فوراً ادا کرے نہیں کر سکا تو آئندہ ادا کرنے کا عزم بالجزم ہونا چاہیے اگر پھر بھی کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ روزے کی ادائیگی کے وقت میں خاصی وسعت ہے جب واجب کی ادائیگی کے وقت میں وسعت و گنجائش ہوتو اس میں عزم کے باوجود تاخیر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اس کی قضا متفرق طور پر دینا بھی جائز ہے البتہ اگر کسی نے سارا سال روزوں کی قضا نہ دی حتی کہ ماہ شعبان کے صرف اس قدر دن رہ گئے جس قدر اس پر قضا کے روزے تھے تو اب چونکہ وقت نہایت تنگ ہے اس لیے اب تسلسل سے قضا دینا اس پر بالا تفاق لازم ہے۔ دوسرے رمضان کے بعد قضا جائز نہیں الایہ کہ کوئی خاص شرعی عذر ہو۔

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا بیان ہے:

"كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إِلا فِي شَعْبَانَ" 

"میرے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تو میں شعبان سے پہلے قضا نہیں دے سکتی تھی۔"[13]

صحیح مسلم کی روایت میں راوی کے وضاحتی الفاظ ہیں:

"وَذَلِكَ لِمَكَانِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وجہ سے ہوتا تھا۔"[14]

اس روایت سے ثابت ہوا کہ روزے کی قضا میں وقت کی خاصی وسعت ہے۔ آئندہ رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے قضا دی جا سکتی ہے۔

اگر قضا میں اس قدر تاخیر ہو گئی کہ اگلا ماہ رمضان بھی شروع ہو گیا تو وہ شخص موجودہ رمضان کے روزے رکھے جبکہ گزشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے بعد میں رکھے۔ اگر یہ تاخیر کسی شرعی عذر کی وجہ سے ہوئی ہے تو صرف روزوں کی قضا دے اور اگر کوئی شرعی عذر نہ تھا تو وہ قضا بھی دے اور بطور کفارہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔[15]

اگر کسی شخص کے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا تھی لیکن اگلا رمضان آنے سے پہلے ہی وہ فوت ہو گیا تو اس کے ذمے کچھ نہیں کیونکہ جس وقت وہ فوت ہو اس وقت ہوااس وقت قضا میں تاخیر جائز تھی۔ اگر وہ رمضان جدید کے بعد فوت ہو گیا تو اگر قضا کی تاخیر کا سبب کوئی شرعی عذر (مرض یا سفر ) تھا تو اس کے ذمے بھی کوئی روزہ نہیں اور اگر بغیر عذر کے رمضان جدید آگیا تو اس کے ترکہ سے ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کا کھانا بطور کفارہ لازم ہے۔

اگر کوئی شخص مر گیا اور اس کے ذمے کسی کفارے کے روزے تھے مثلا: ظہار کے کفارہ کے واجب روزے تھے یا حج تمتع میں قربانی نہ کرنے کی وجہ سے روزے واجب تھے تو میت کی طرف سے روزے نہ رکھے جائیں بلکہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے جو اس کے ترکہ سے اداہو کیونکہ یہ ایسے روزے تھے جن کی زندگی میں نیابت نہیں ہو سکتی تھی لہٰذا موت کے بعد بھی نیابت درست نہیں یہ قول اکثر اہل علم کا ہے۔

اگر کوئی شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے تو مستحب یہ ہے کہ اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے:

"جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله إن أمي ماتت وعليها صوم نذر ، أفأصوم عنها ؟ قال : أرأيت لو كان على أمك دين فقضيتيه ، أكان يؤدّي ذلك عنها ؟ قالت : نعم . قال : فصومي عن أمك . "

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا: میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمے نذر کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے وہ روزے رکھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کردیتی تووہ اس کی طرف سے ادا ہو جاتا؟ تو اس عورت نے کہا: ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تو اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔"[16]

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں۔ اصلی فرض روزے نہ رکھے جائیں یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کا مسلک ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے بھی یہی منقول ہے علاوہ ازیں دلیل وقیاس بھی اس کا مقتضی ہے کیونکہ شریعت کے کسی حکم سے نذر واجب نہ تھی بلکہ بندے نے خود ہی اپنے آپ پر ضروری قراردے لی جو فرض کا درجہ پاگئی اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نذرکو قرض کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور روزے کو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے فرض قرراردیا ہے جو اسلام کا ایک رکن ہے۔ اس میں کسی حال میں بھی نیابت کا دخل نہیں جس طرح کلمہ شہادت اور نماز میں نیابت درست نہیں بلکہ ان سے مقصود بندے کا خود اطاعت کرنا اور وہ حق عبادت ادا کرنا ہے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا اور اس کا حکم دیا ہے لہٰذا اسے کسی دوسرے کی طرف سے نہ ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی طرف سے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔"

شیخ السلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے یہ امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کا مسلک ہے اور یہی درست ہے نذر کا ذمہ اس نے خود اٹھایا ہے لہٰذا موت کے بعد اسے ولی ادا کرے البتہ رمضان المبارک کے روزے عاجز اور معذور شخص پر فرض نہیں بلکہ عاجز کے لیے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے باقی رہی روزوں کی قضا تو وہ صرف قدرت والے شخص پر ہے عاجز پر نہیں اس لیے عاجز کی موت کے بعد ولی پر قضا بھی نہیں ہاں نذر وغیرہ کے روزے احادیث صحیحہ کی روشنی میں بالا تفاق میت کی طرف سے رکھے جائیں۔" 

بڑھاپے اور بیماری میں روزے کے احکام

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ماہ رمضان کے روزے فرض قراردیے ہیں جو حضرات معذور نہیں وہ انھیں وقت پرادا کریں معذور افراد قضا دیں بشرطیکہ دوسرے دنوں میں قضا کی طاقت رکھتے ہوں یہاں ایک تیسری قسم کے افراد بھی ہیں جوادا کی طاقت رکھتے ہیں نہ قضا کی۔ اس قسم میں وہ شخص داخل ہے جو بہت زیادہ بوڑھا ہو یا وہ مریض جس کے تندرست ہونے کی کوئی امید نہ ہو ۔ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ تخفیف فرمائی ہے کہ وہ ہر رزوے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

"اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔"[17]

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ...﴿١٨٤﴾... سورة البقرة

"اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں۔"[18]

سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے:"اس آیت کا حکم اس بوڑھے مرد اور عورت کے لیے ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔"[19]

لیکن جس نے کسی عارضی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑا جیسے مسافر یا وہ مریض جس کے تندرست ہونے کی کوئی امید ہو یا حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت جسے اپنے وجود یا اپنے بچے کی کمزوری کا خوف ہو یا حیض و نفاس والی عورت ہو ان تمام پر روزے کی قضا لازم ہے۔ جس قدر ان کے روزے چھوٹ جائیں گے اسی قدر دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر قضا دیں گے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥... سورة البقرة

"ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔"[20]

وہ مریض جسے روزہ رکھنے سے تکلیف ہو یا وہ مسافر جس سفر میں اس کے لیے قصر کرنا جائز ہو ان کا روزہ چھوڑنا مسنون عمل ہے۔اللہ تعالیٰ نے انھی کے حق  میں فرمایا ہے۔

﴿فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ ...﴿١٨٤... سورة البقرة

"ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔"[21]

یعنی وہ روزہ چھوڑدے اور جتنے روزے چھوڑے ہیں ان کی گنتی کے برابر بعد میں روزے رکھ لے جسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة

"اللہ کا ارادہ تمھارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔"[22]

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو دو کاموں میں سے کسی ایک کے کرنے کا اختیار ملتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آسان کام اختیار کرتے ۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے:

"ليس مِن البِرِّ الصِّيامُ في السَّفَر"

"سفر میں روزہ رکھنا نیکی کاکام نہیں۔"[23]

اگر مسافر یا مریض جس کے لیے روزہ رکھنا مشکل ہونے روزہ رکھا لیا تو کراہت کے باوجود ان کا روزہ درست ہوگا البتہ حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے۔

بچے کودودھ پلانے والی اور حاملہ جتنے روزے چھوڑے گی دوسرے دنوں میں ان کی قضا دے جس نے بچے کی پرورش کے پیش نظر روزے چھوڑ دیے تو وہ روزوں کی قضا کے ساتھ ہر روزے کے بدلےایک مسکین کے کھانے کا کفارہ بھی دے۔[24]

علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کا فتوی ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی دونوں عورتیں اپنے بچوں کے بارے میں اگر کوئی و خطرہ محسوس کریں تو وہ روزے چھوڑدیں اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ان کا کھانا کھلانا روزوں کی ادا کے طور پر ہوگا نیز ان پر چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا بھی لازم ہے۔"[25]

کسی شخص کو ہلاکت اور موت سے بچانے کی خاطر روزہ توڑا جا سکتا ہے مثلاً: اگر کوئی پانی میں ڈوب رہا ہے تو اس کو بچانے کی خاطر نہر دریا وغیرہ میں کود جانا۔

ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"روزہ چھوڑنے کے چار اسباب ہیں۔(1)سفر (2)مرض (3) حیض(4)روزہ رکھنے سے کسی کی ہلاکت کا خوف ہو جیسے دودھ پلانے والی یا حاملہ عورت یا غرق ہونے والے کو بچانا۔"

مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ فرض روزے کی نیت رات ہی کو کرے مثلاً:رمضان المبارک کا روزہ کفارے کا روزہ نذر کا روزہ وغیرہ نیت کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں ارادہ کرے کہ وہ صبح رمضان کا یا اس کی قضا کا روزہ رکھے گا یا صبح کو نذر یا کفارے کا روزہ رکھے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"

"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا۔"[26]

سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلا صِيَامَ لَهُ "

"جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کو روزہ رکھنے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔" [27]

اس روایت کی روشنی میں فرض روزے کی نیت رات کو کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی دن چڑھے بیدار ہوا اور اس نے طلوع فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا پھر اس نے روزے کی نیت کر لی تو اس کا روزہ ہو گا البتہ نفلی روزہ اس طرح رکھا جا سکتا ہے۔

نفلی روزے کی نیت دن کو ہو سکتی ہے۔حضرت  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا بیان ہے کہ ایک روز میرے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور پوچھا :

"هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟» فَقُلْنَا: لَا، قَالَ: «فَإِنِّي إِذَنْ صَائِمٌ"

"کھانے کے لیے کچھ ہے؟میں نے کہا نہیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تب میرا روزہ ہے۔"[28]

اس روایت سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پہلے روزے کی حالت میں نہ تھے تبھی تو کھانا طلب کیا اور اس حدیث میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ نفلی روزے کی نیت میں صبح تک تاخیر کرنا جائز ہے اسی طرح یہ بھی واضح ہوا کہ عدم جواز کی روایات فرض روزے کے ساتھ خاص ہیں۔

نفلی روزے کی نیت دن کے وقت تب درست ہے جب نیت سے پہلے روزے کے منافی کام یعنی فجر ثانی کے بعد کچھ کھایا پیا وغیرہ ہو ورنہ روزہ نہ ہو گا۔


[1]۔دیکھیے المغنی والشرح الکبیر3/49۔

[2]۔البقرۃ:2/187۔

[3]۔صحیح البخاری الصوم باب الصائم اذا کل اوشرب ناسیا حدیث 1933 وصحیح مسلم الصیام باب اکل الناسی وشربہ وجماعہ لا یفطر حدیث1155۔

[4]۔صحیح البخاری البیوع باب تفسیر المشبہات قبل حدیث 2052۔معلقاً وجامع الترمذی صفۃ القیامہ باب حدیث اعقلہا وتوکل حدیث 2518۔

[5]۔سنن ابی داؤد الصیام باب الصائم یستقی عامداً حدیث 2380۔وجامع الترمذی الصوم باب ماجاء فیمن استقاء عمداً حدیث 720۔واللفظ لہ۔

[6]۔مصنف نے اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جبکہ صحیح یہی ہے کہ سرمہ دوائی ڈالنا جائز ہے۔(صارم)

[7]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب فی الاستشار حدیث 142وجامع الترمذی الصوم باب ماجاء فی کراھیہ مبالغہ الاستشاق للصائم حدیث788۔

[8]۔صحیح البخاری الصوم باب فضل الصوم حدیث 1894۔

[9]۔صحیح البخاری الصوم باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ فی الصوم حدیث1903۔

[10]۔(ضعیف) مسند الفردوس للدیلمی 2/411حدیث و ضعیف الجامع الصغیر و زیادۃ حدیث 3528۔

[11]۔(ضعیف) ضعیف الجامع الصغیر وزیادۃ حدیث 5083۔والسلسلۃ الضعیفۃ حدیث 4451۔

[12]۔البقرۃ:2/184۔

[13]۔صحیح البخاری الصوم باب منی یقضی قضا ء رمضان حدیث 1950وصحیح مسلم الصیام باب جواز تاخیر قضاء رمضان مالم یحی رمضان اخر حدیث 1146۔

[14]۔صحیح مسلم الصیام باب جواز تاخیر قضاء رمضان حدیث1146۔

[15]۔المغنی والشرح الکبیر 4/85۔86۔یہ مسئلہ بلا دلیل ہے قضا لازم ہے مزید بطور کفارہ مساکین کو کھانا دینا لازم نہیں دیکھئے اللباب 294(ع۔د)

[16]۔صحیح البخاری الصوم باب من مات وعلیہ صوم حدیث 1953۔وصحیح مسلم الصیام باب قضا ء الصوم عن المیت حدیث 1148۔واللفظ لہ۔

[17]۔البقرۃ:2/286۔

[18]۔البقرۃ:2/184۔

[19]۔صحیح البخاری التفسیر باب قولہ تعالیٰ (أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ)حدیث 4505۔

[20]۔البقرۃ:2/185۔

[21]۔البقرۃ:2/185۔

[22]۔البقرۃ:2/185۔

[23]۔صحیح البخاری الصول باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم  لمن ظلل علیہ حدیث 1946وصحیح مسلم الصیام باب جواز الصوم واللفطر فی شہر رمضان للمسافر حدیث 1115۔

[24]۔مؤلف کا یہ مسئلہ بلا دلیل ہے حاملہ اور مرضعہ دوسرے دنوں میں ان روزوں کی قضا دے۔ اگر اس کی طاقت نہیں رکھتی تو پھر ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے دیکھیے اللباب ص(ع۔د)

[25]۔اعلام الموقعین :3/190۔

[26]۔صحیح البخاری بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی حدیث 1۔وصحیح مسلم الامارۃ باب قولہ انما الاعمال بالنیہ

[27]۔السنن الکبری للبیہقی 4/203۔وسنن النسائی الصیام ذکر اختلاف التاقلین لخبر حفصہ فی ذلک حدیث 2333عن حفصۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ۔

[28]۔صحیح مسلم الصیام باب جواز صوم النافلۃ بینہ من النہار قبل الزوال حدیث 1154۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

روزوں  کے مسائل:جلد 01: صفحہ 322

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ