سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) درختوں سے برکت حاصل کرنا؟

  • 23399
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1374

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برصغیر پاک و ہند میں بہت سے لوگ بعض درختوں کو متبرک جانتے ہیں، برکت حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ دھاگے، رسیاں، کپڑے باندھتے ہیں نیز ان میں کیل وغیرہ گاڑھتے ہیں۔ کیا درختوں سے برکت حاصل کرنا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درختوں سے برکت حاصل کرنے کا عمل زمانہ جاہلیت کے مشرکین کے عمل کی طرح ہے۔ قدیم گمراہ لوگ اس قسم کی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے اور ہم ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جسے ذاتِ انواط کہا جاتا تھا، مشرکین وہاں مجاور بن کر بیٹھتے اور اپنے ہتھیار بھی وہاں برکت حاصل کرنے کے لیے لٹکاتے تھے، ہم نے بھی ایک بیری کے پاس سے گزرتے ہوئے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط بنا دیں جیسا کہ مشرکین کے لیے ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای:

(الله اكبر انها السنن قلتم والذى نفسى بيده كما قالت بنو اسرائيل لموسى: اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ سورة الأعراف آية 138، لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ ")(مسند احمد 218/5)

’’اللہ اکبر! یہی تو سابقہ قوموں کے راستے ہیں، قسم اس ہستی کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے وہی بات کہی ہے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہی تھی: (ارشاد الہٰی ہے) ’’ہمارے لیے ایسا ایک معبود بنا دیں جیسا اُن کے لیے ہے، آپ نے فرمایا: تم ایسی قوم ہو جو جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔‘‘ (پھر فرمایا کہ) ضرور تم اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب حنین کی طرف نکلنے تو ایک درخت کے قریب سے گزرے، اس درخت کو ذات انواط کہتے تھے، اس میں مشرک لوگ اپنے ہتھیار برکت حاصل کرنے کے لیے لٹکاتے تھے، تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط، جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، مقرر کر دیجیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(سبحان الله هذا كما قال قوم موسى: ((اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ)) والذى نفسى بيده لتركبن سنة من كان قبلكم)(ترمذي، الفتن، لترکبن سنن من کان قبلکم، ح: 2180)

’’اللہ پاک ہے، یہ تو ویسی بات ہوئی جیسی موسیٰ کی قوم نے کہی: (اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا) ’’یعنی ہمارے لیے ایک معبود بنا دے۔‘‘قسم ہے پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے اگلوں کے افعال کے مرتکب ہو گے۔‘‘

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ:

1۔ مشرکین اور جہلاء کی مشابہت ممنوع ہے۔

2۔ جس کام پر بنی اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے اگر ویسا ہی کام یہ امت بھی کرے تو قابل مذمت ہے۔

3۔ جو چیز کسی غلط عمل و عقیدے کی طرف لے جانے والی ہو اس سے اجتناب بھی ازبس ضروری ہے، (اسے سد الذرائع کا اصول بھی کہا جاتا ہے۔)

4۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، ہم دیکھتے ہیں کہ یہودونصاریٰ، مشرکین اور جاہلوں کے طور طریقے مسلمانوں نے بھی اپنا لیے ہیں۔

5۔ شرک سے بچنے کے لیے انسان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے، بسا اوقات آدمی کسی چیز کو اچھا سمجھتا اور سوچتا ہے کہ یہ چیز اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے گی درآں حالیکہ وہ چیز اس کے لیے بری ہوتی ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور اور اُس کی ناراضگی کے قریب کر دیتی ہے۔

اہل حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو متنبہ کریں تاکہ وہ مشرکاانہ عقائد و اعمال سے محفوظ رہ سکیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

شرک اور خرافات،صفحہ:114

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ