سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) دودھ بینکوں کے دودھ کا حکم

  • 23335
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1660

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برطانی کےہسپتالوں میں ناقص الخلقت نوزائیدہ بچوں کودودھ بینکوں کادودھ  پلایا جاتاہے جوکہ ان کی صحت کےلیے ضروری ہے، کیاایسے دودھ سےرضاعت ثابت ہوجاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس موضوع پرجرمنی میں مقیم ایک عرب عالم نے،جوکہ ماہرفلکیات،طب اور طبیعات ہیں، سیرحاصل بحث کی ہے، ڈاکٹر محمد ہواری کےنام سےمعروف ہیں۔ ذیل میں ان کی بحث کاخلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

 ماں کا دودھ کی افادیت کاانکار نہیں کیا جاسکتا، خاص طورپر ان بچوں کےلیے جو قدرتی ولادت کی مدت سےقبل پیدا ہوجاتےہیں۔ان کےلیے ماں کا دودھ نہ صرف امراض کےمقابلے میں قوت برداشت پیدا کرتا ہےبلکہ اعضائے تنفس اوراعضائے ہضم کولاحق ہونے والے التہامات سےبھی بچاتاہے۔ماں کےدودھ میں زِنک کی بھی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہےجوگائے بھینس کےدودھ میں نہیں پائی جاتی،انھی وجوہات کی بنا پر دودھ کےبینک کاتصور ابھرااور 1910ء میں بوسٹن(امریکہ ) میں پہلا دودھ کابینک قائم کیاگیا۔ایسے بینکوں میں ان عورتوں کادودھ محفوظ کیا جاتا ہے جوولادت کےقریب ہوں یا اپنے بچوں کودودھ پلا رہی ہوں اور ضرورت سےزائد دودھ دینے پرتیار ہوں۔ اس دودھ کی دوقسمیں ہیں:

1۔ ماں کا دودھ جواس کےاپنے بچے کوپلانے کےلیے محفوظ کیاجاتا ہے۔

2۔ کسی بھی عورت کادودھ جس کےساتھ کسی دوسری عورت کادودھ بھی  ملایا جاسکتا ہے اورکسی بھی ضرورت مند بچے کودیا جاسکتاہے۔

چونکہ دودھ سےرضاعت کاحکم ثابت ہوتاہے جیسے کہ رسول اللہﷺ کاارشاد ہے:’’ رضاعت سےبھی وہ حرمت ثابت ہوتی ہےجوکہ نسب سےثابت ہوتی ہے۔،،

اس لیےدودھ کی بینکوں کےبارےمیں بین الاقوامی اسلامی فقہ کونسل کےاجلاس منعقدہ جدہ(سعودی عرب) بتاریخ دسمبر 1985ء میں یہ فیصلہ رقم کیا گیا۔ اس موضوع پرتفصیلی بحث سےمندرجہ ذیل نکات سامنے آئے:

(1)   دودھ بینکوں کا تجربہ مغربی ممالک میں کیا گیا اورجوں جوں اس کےمنفی پہلو سامنے آتےگئے، اس کا استعمال کم ہوتا گیا۔

(2)  اسلام میں رضاعت سےحرمت ثابت ہوتی ہےاورشریعت میں نسب کی حفاظت ایک مقصد کی حیثیت رکھتی ہے،جبکہ دودھ بینکوں کااستعمال نسب کو ضائع کرسکتا ہےیا اس سلسلے میں شکوک وشبہات کوجنم دےسکتاہے۔

(3)  عالم اسلام میں اجتماعی طورپر ایسے روابطہ پائے جاتےہیں جن کےذریعے سےان بچوں کوضرورت  کی مطابق قدرتی رضاعت مہیا کردی جاتی ہےجو یاتو ناقص الخلقت ہوں یاکم وزن ہوں یاانسانی دودھ کےخاص طورپر محتاج ہوں، اس لیے عالم اسلام میں دودھ بینکوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(4)  اس لیے کونسل یہ فتویٰ دیتی ہےکہ عالم اسلام میں دودھ بینکوں کےقیام کوممنوع قرار دیا جائے اوراگران بینکوں سےاستفادہ کیا گیا ہوتو اس سے رضاعت کی بناپر حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔

لیکن ہم سمجھتےہیں کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کےلیے اس مسئلہ میں مزید بحث اورتحقیق کی گنجائش ہے، وہ اس لیے کہ دودھ بینکوں کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہاہے۔

رضاعت  کےبارے میں شرعی احکام کاخلاصہ یہ ہے: رضاعت اس عمل کانام ہےجس کےنتیجے میں ایک بچے کےمعدے میں عورت کا دودھ پہنچتا ہےاوربقول جرجانی:’’رضاعت نام ہےبچے کا مدت رضاعت میں ایک عورت کی چھاتی سےدودھ کاچوسنا۔،،

رضاعت کاحکم: ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

’’ (اورحرام ہیں تم پر)تمہاری وہ مائیں جنہوں نےتمہیں دودھ پلایا اور رضاعت کی وجہ سے تمہاری بہنیں۔،، )النساء 4؍23)

نبی  ﷺ نےحضرت حمزہ ﷜ کی بیٹی کےبارے میں کہا:’’ یہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔،،(صحیح البخاری، الشھادات، حدیث: 2645 وصحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 1446- 1447 )

رضاعت کی شرائط:

جمہور کےنزدیک جس رضاعت سےحرمت ثابت ہوتی ہے،وہ ولادت کےبعد شروع کےدوسال ہیں، جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿ وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورة البقرة

’’ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا اراده دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو،‎،

( سورہ البقرہ2: 233)

اور ارشاد فرمایا:

﴿حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُرهًا وَوَضَعَتهُ كُرهًا وَحَملُهُ وَفِصـٰلُهُ ثَلـٰثونَ شَهرًا... ﴿١٥﴾... سورة الاحقاف

’’ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔،،(الاحقاف 46؍15 )

حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «لا رضاع الا شدالعظم وانبت اللحم»

’’ رضاعت وہی معتبر ہےجوہدیوں کومضبوط بنائے  اورگوشت کواگائے۔،،

حضرت عائشہ ؓ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ  ان کےگھر داخل ہوئے،جہاں ایک آدمی موجود تھا تونبیﷺ کےچہرے کارنگ بدل گیا،جس پرانہوں نےکہا: اللہ کےرسول! یہ تومیرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا:’’اچھی طرح دیکھ بھال کرلوکہ تمہارے بھائی کون ہیں، اس لیے کہ رضاعت کااعتبار بھوک(دودھ کی حاجب) کےزمانے سےہوتاہے۔،،

حرمت کےلیے کتنی دفعہ دودھ پیا جائے؟:

اہل علم کی آراء میں سے ایک رائے یہ ہےکہ چاہے تھوڑا دودھ پیا جائے یازیادہ،حرمت ثابت ہوجاتی ہے، اس لیے کہ قرآن میں رضاعت کالفظ مطلق وارد ہوا ہے۔

دوسری رائے یہ ہےکہ کم سے کم تین دفعہ پیا جائے۔تیسری رائےیہ ہےکہ کم سے کم پانچ دفعہ پیا جائے۔

ہمارے نزدیک تیسری رائے راجح ہے، جس پرامام شافعی اورامام احمد﷫ کاعمل ہے۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث ہے:’ قرآن میں دس دفعہ دودھ پینے کا ذکر تھا، جس سےحرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے،پھر یہ حکم پانچ دفعہ پینے کا حکم آنے سےمنسوخ ہوگیا۔،، (صحیح مسلم، الرضاع:حدیث 1452)

ایک دفعہ سے کیا مراد ہے؟:

                                اس سےمراد بچے کاچھاتی سےاس وقت تک دودھ پینا ہےجب تک کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کےاپنا منہ نہ ہٹالے، رکاوٹ کامطلب ہےکہ سانس لینے کی بنا پر یابطور کھیل یادودھ پلانے والی کےخود اسے ہٹانے کےبغیر اس نےاپنی مرضی سےدودھ چھوڑ دیاہو۔ اس طرح اگرپانچ مرتبہ دودھ پیے توحرمت ثابت ہوگی۔

رضاعت سےکون کون سے رشتے ثابت ہوتےہیں؟:

                بچے نےجس عورت کادودھ پیا ہے وہ اس کی رضاعی ماں اور اس کا شوہر اس کا رضاعی باپ کہلائے گا، یعنی ایسی عورت سےنکاح کرناناجائز ہوگا اور اس کےساتھ خلوت میں بیٹھنا یاسفر کرناجائز ہوگا، اس کےعلاوہ اس بچے کی اولاد اور اولاد کی اولاد کارشتہ بھی رضاعی ماں سے بحیثیت دادی یانانی قائم ہوجائےگا۔

دودھ پلانے والی عورت کےاوراس کےشوہر(جس کی وجہ سے دودھ اترا ہے) کےبچے دودھ پینے والے بچے کےرضاعی بھائی اور بہن کہلائیں گے۔ان دونوں کی اولاد کی اولاد رضیع(دودھ پینےوالے بچے) کےلیے بمنزلہ بھائیوں اوربہنوں کی اولاد ہوگی۔

دودھ پلانے والی کےبھائی اس دودھ والے بچے کےماموں اوراس کی بہنیں اس کی خالائیں ہوں گی۔اس کےشوہر کاباپ اس کا دادا اورماں اس کی دادی ہوگی۔ اس کےشوہر کےبھائی اس کےچچا اوربہنیں پھوپھیاں ہوں گی۔

اس کےتمام اقرباء جیسے نسب میں اس کےرشتہ دار ہیں اس بچے کےبھی رشتے دار ہوں گے۔

لیکن  رضیع( دودھ پینےوالے بچے) کےماں باپ،بھائی بہن،چچا، ماموں، خالہ،پھوپھی کامرضعہ(دودھ پلانےوالی) کےساتھ کوئی حرمت کارشتہ نہیں ہوگا، یعنی مرضعہ اس بچے کےباپ،بھائی،چچا، ماموں سےنکاح کرسکتی ہے۔

اس طریقے سےاس کاشوہربچے کی ماں،بہن، خالہ، پھوپھی سےنکاح کرسکتاہے اوراس طرح اس عورت کےبچے یااس کےشوہر کےبچے، رضیع کےبہن بھائیوں سےرشتہ ازدواج قائم کرسکتےہیں۔

دودھ بینکوں کےبارے میں دوسرا نقطہ نظر:

                                موجودہ دور کےایک فاضل عالم(ڈاکٹر یوسف قرضاوی) کی رائے میں دودھ بینک سےحرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، ان کےدلائل کا خلاصہ یہ ہے:

1۔ کیا رضاعت کا سبب صرف ہڈیوں کامضبوط بنانا اور گوشت کااگانا ہے؟اگر اسے سبب مانا جائے تو پھر کسی بھی خاتون کےخون کےعطیہ کےبارےمیں کیا کہاجائے گا، وہ اس لیے کہ خون سےدودھ کی نسبت زیادہ قوت اورطاقت پیدا ہوتی ہے۔بقول ابن حزم قرآں نےدودھ پلانے والی کوماں(امہات) سےتعبیر کیا ہے جس سے صرف دودھ کاحاصل کرنا مراد نہیں بلکہ ماں کی شفقت اوراس کےجسم سےلپٹ کر دودھ پینے کی کیفیت کابھی اظہارہوتاہے اوریہ بات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب بچے نےخاتون کی چھاتی سےلگ کردودھ پیاہ، نہ کہ دودھ ایک بوتل میں انڈیل کراسےپلا دیا ہو یابطور حقنہ(انجکشن ) اس کےجسم میں داخل کیا گیا ہو۔

(1)   دودھ کےبنک سے رضاعت کااس فطری رضاعت سےکوئی تعلق نہیں ہے۔

(2)  اس بات میں بھی شک ہےکہ دودھ کس عورت کاتھا، کتنی مقدار میں اس نےپیا، کیا اس کاپینا پانچ دفعہ کےبرابر تھا یا نہیں؟

(3)  اس بات میں بھی شک ہےکہ اس دودھ میں کسی دوسری عورت کابھی دودھ شامل ہو اورجہاں شک ہووہاں حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

ابن قدامہ لکھتےہیں:

                                ’’ اگر رضاع کےوجود میں شک ہویا اس کےعدد کےبارے میں کہ پورے پانچ مرتبہ ہوایا نہیں؟ توحرمت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ یقین شک کی بناپر زائل نہیں ہوتاجیسا کہ طلاق کےہونے یانہ ہونے میں شک ہو۔،،

اس رائے کےحامل شیخ عبداللطیف حمزہ سابق مفتی مصر بھی رہےہیں،یعنی دودھ بینک سےحاصل کردہ دودھ سےرضاعت ثابت نہیں ہوتی اوراس رائے سےشام کےمشہور عالم مصطفیٰ الزرقاء نےبھی اتفاق کیاہے۔

میرارجحان بھی اسی رائے کی طرف ہے، الا یہ کہ دودھ بینک میں ہرعورت کا دودھ علیحدہ علیحدہ محفوظ کیا گیا ہواور اس عورت کانام وپتہ بھی بچے کےکفیلوں کودیا جائے لیکن اگر یہ دودھ مختلف ہوتو پھر مندرجہ بالا دلائل کی بناپر حرمت ثابت نہیں ہو گی۔ واللہ اعلم

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

حلال وحرام کےمسائل،صفحہ:349

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ