سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(625) شب معراج

  • 2293
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2848

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شب معراج منانا درست ہے۔؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسراءاور معراج كى شب اللہ عزوجل كى ان عظيم الشان نشانيوں ميں سے ایک ہے جو نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم كى صداقت اوراللہ کے نزديک آپ کے عظيم مقام ومرتبہ پر دلالت کرتی ہے، نيز اس سے اللہ تعالی كى قدرت اور اس کے اپنی تمام مخلوقات پر عالى وبلند ہونے کاثبوت ملتا ہے.

اللہ تعالى نے فرمايا:

سبحان الذي أسرىٰ بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي بارکنا حوله لنريه من آياتنا إنه هوالسميع البصير ۔(الاسراء 1)

پاک ہے وہ اللہ تعالى جواپنے بندے کو رات ہی ميں مسجد حرام سے مسجد اقصى تک لے گيا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں، يقينا اللہ تعالى ہی خوب سننے والا اور ديکھنے والا ہے.

رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو آسمان پر لے جاياگيا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے ،يہاں تک کہ آپ ساتويں آسمان سے آگے گزر گئے، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائی اور پانچ وقت كى نمازيں فرض کيں، اللہ عزوجل نے پہلے پچاس نمازيں فرض کی تھيں،پھر ہمارے نبی محمد صلى اللہ عليہ وسلم بار بار اللہ کے پاس جاتے اور تخفيف کا سوال کرتے رہے يہاں تک کہ اللہ تعالى نے اسے باعتبار فرضيت پانچ وقت كى کردیں اوراجر وثواب پچاس نمازوں ہی کا باقی رکھا، کيونکہ ہر نيكى دس گنا بڑھائی جاتی ہے لہذا اللہ تعالى ہی تمام تر نعمتوں پر حمد وشکر کا سزا وار ہے.

يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئی صحيح حديث وارد نہيں ہے، بلکہ اس كى تعيين ميں جو روايتيں بھی آئی ہيں محدثين کے نزديک نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہيں، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلا دينے ميں اللہ تعالى كى کوئی بڑی حکمت ضرور پوشيدہ ہے، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھی ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اسےكسى عبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبی صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام رض نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئی جشن منايا اور نہ ہی اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعاً ثابت ہوتا تو نبی صلی اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبویﷺ يا عہد صحابہ رض ميں ايسی کوئی چيز ہوتی تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتی اور صحابہ کرام رض اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے، کيونکہ انہوں نے نبی صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل کرکے امت کو ہر وہ بات پہنچائی جس كى امت کو ضرورت تھی، اوردين کے كسى بھی معاملہ ميں کوئی کوتاہی نہیں كى، بلکہ وہ نيكى کے ہرکام ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے تھے چنانچہ اگر اس شب ميں جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے كى کوئی شرعی حيثيت ہوتی تو وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے.

نبی صلى اللہ عليہ وسلم امت کے سب سے زيادہ خيرخواہ تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے پيغام الہی کو مکمل طور پر پہنچا کر امانت كى ادائيگی فرمادی، لہذا اگر اس شب كى تعظيم اور اس ميں جشن منانا دين اسلام میں سے ہوتا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم قطعاً اسے نہ چھوڑتے اور نہ ہی اسے چھپاتے، ليکن جب عہد نبویﷺ اور عہد صحابہ رض ميں يہ سب کچھ نہيں ہوا تو يہ بات واضح ہوگئى کہ شب معراج كى تعظيم اور اس کے اجتماع کا دين اسلام سے کوئی واسطہ نہيں ہے، اللہ تبارک وتعالى نے اس امت کے لئے اپنے دين كى تکميل فرما دی ہے، اور ان پر اپنی نعمت کا اتمام کرديا ہے، اور ہراس شخص پرعيب لگايا ہے جو مرضی الہی کے خلاف بدعات ايجاد کرے.

ارشاد باری تعالی ہے:

اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا (المائدۃ 5 / 3)

آج ميں نےتمہارے لئے دين کوکامل کرديا، اور تم پر اپنا انعام پورا کرديا اور تمہارے لئے اسلام کے دين ہونےپر رضامند ہوگيا.

ارشاد باری تعالی ہے:

أم لهم شرکاء شرعوا لهم من الدين مالم يأذن به الله ولولا کلمة الفصل القضي بينهم وإن الظالمين لهم عذاب أليم (الشورى ( 42 / 21 )

کيا ان لوگوں نے اللہ کے شريک مقرر کر رکھے ہيں جنہوں نے ايسے احکام دين مقرر کردئے ہيں جواللہ تعالى کے فرمائے ہوئے نہيں ہيں، اگر فيصلہ کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ان ميں فيصلہ کر ديا جاتا، يقينا ( ان ) ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے.

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث ميں بدعات سے بچنے كى تاکيد اور اس کے گمراہی ہونے كى صراحت ثابت ہے، تاکہ امت کے افراد ان کے بھيانک خطرات سے آگاہ ہو کر ان کے ارتکاب سے پرہيزواجتناب کريں.

چنانچہ صحيح بخاري ومسلم ميں حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے مروي ہے کہ رسول صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد "

جس نے ہمارے اس دين ميں کوئی نيا کام نکالا جو ( دراصل ) اس ميں سے نہيں ہے وہ ناقابل قبول ہے.

اور صحيح مسلم كى ايک روايت ميں يہ الفاظ ہيں کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد "

جس نے کوئی ايسا عمل کيا جو ہمارے اسلام ميں نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے.

اور صحيح مسلم ميں حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ کے دن اپنےخطبہ ميں فرمايا کرتےتھے:

" أما بعد فإن خير الحديث کتاب الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة "

حمدوصلاۃ کے بعد: بيشک بہترين بات اللہ كى کتاب اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم کا طريقہ ہے، اور بدترين کام نئی ايجاد کردہ بدعتيں ہيں اور ہر بدعت گمراہی ہے.

اور سنن ميں حضرت عرباض بن ساريہ رضي اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے وہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں انتہائی جامع نصيحت فرمائی، جس سے دلوں ميں لرزہ طاری ہوگيا اور آنکھيں اشکبار ہوگئيں، تو ہم نے کہا اے اللہ کےرسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ الوداعی پيغام معلوم ہوتا ہے، لہذا آپ ہميں وصيت فرمائيے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" أوصيکم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن تأمرعليکم عبد فإنه من يعش منکم بعدي فسيرى اختلافا کثيرا فعليکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسکوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة "

ميں تمہيں اللہ سے ڈرتے رہنے، حاکم وقت كى بات سننے اور ماننے كى وصيت کرتا ہوں اگرچہ تم پر حبشی غلام ہی حاکم بن جائے، اور ميرے بعد جوشخص زندہ رہےگا وہ بہت سے اختلافات ديکھے گا، اس وقت تم ميری سنت اور ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو اوردين ميں نئی نئی باتوں سے بچو کيونکہ ہر نئی چيز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے.

رسول اکرم صلى اللہ عليہ وسلم کے صحابہ اور سلف صالحين بھی بدعتوں سے ڈراتے اور ان سے بچنے كى تاکيد کرتے رہے۔کيونکہ بدعات دين ميں زيادتی اور مرضی الہی کے خلاف شريعت سازی ہيں۔ بلکہ يہ اللہ کے دشمن يہود ونصاریٰ كى مشابہت ہے، جس طرح انہوں نے اپنے اپنے دين ( يہوديت، عيسائيت ) ميں نئی چيزوں کا اضافہ کرليا اور مرضی الہی کے خلاف بہت سی چيزيں ايجاد کرليں نيز بدعات ايجاد کرنے کا لازمی نتيجہ دين اسلام کونقص اور عدم کمال سے متہم کرنا ہے.

اور يہ تو واضح ہی ہے کہ بدعات کے ايجاد کرنے ميں بہت بڑی خرابی اور شريعت كى انتہائی خلاف ورزی ہے، نيز اللہ عزوجل کے اس فرمان

’’ اليوم اکملت لکم دينکم‘‘

آج ميں نے تمہارے لئے تمہارا دين مکمل کرديا ہے،

سے ٹکراؤ اور بدعات سے ڈرانے اور نفرت دلانے والی احاديث رسولﷺ كى صريح مخالفت بھی ہے.

مجھےاميد ہے کہ اس مسئلہ ميں ہماری طرف سے پيش کردہ دليليں حق کے طلبگار کے لئے بدعت شب معراج کے انکار اور اس سے ڈرانے کے لئے کافی اور تسلی بخش ہوں گی، اور ان سے يہ بھی واضح ہوگيا ہو گا کہ شب معراج کےجشن اور اجتماع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے. (فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ)

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب۔

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ