سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(241) ایک دفعہ دودھ پینے سے رضاعت

  • 22674
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1191

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکے نے اپنی خالہ کا ایک مرتبہ دودھ پیا اور سو گیا تقریبا اڑھائی سال بعد اس کی خالہ کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اب اس لڑکی کا اس لڑکے کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ (عبدالمجید خاں، ملتان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح تر بات یہ ہے کہ بچے کی حالت شیر خوارگی میں اس طرح دودھ پلایا گیا ہو کہ وہ اس کے بدن کی غذا بن جائے خواہ کسی طرح بھی پلایا جائے تو اس سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "رضاعت بھوک سے ثابت ہو گی۔"(صحیح البخاری کتاب الشہادات، صحیح مسلم کتاب الرضاع)

یعنی جس رضاعت سے بچے کی بھوک دور ہو جائے وہ باعث حرمت ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ "اس رضاعت سے حرمت ثابت ہو گی جو آنتوں کو پھاڑ دے اور یہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔ (ترمذی، حاکم)

یعنی جس رضاعت سے دودھ سے آنتیں بھر کر ایک دوسری سے جدا ہو جائیں۔ محدثین کی اکثریت اس بات کی طرف گئی ہے کہ ایسے دودھ کی تعداد پانچ مرتبہ دودھ پینا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی تائید میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے اور قرآن حکیم نے جو مطلق طور پر رضاعت ذکر کی ہے۔ ان احادیث نے اس اطلاق کو مقید کر دیا ہے اور عام کی تخصیص ہو گئی ہے ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دودھ چوس لینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ صحیح مسلم (1450) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مرتبہ چوسنا یا دو مرتبہ چوسنا حرام نہیں کرتا حرام کرنے کی مقدار پانچ رضعات ہیں یعنی بچہ جب ایک مرتبہ پستان منہ میں لے کر دودھ چوستا ہے پھر اپنی مرضی سے بغیر کسی عارضے کے چھوڑ دے تو یہ ایک مرتبہ ہے اس طرح پانچ دفعہ اگر کسی بچے کے بارے ثابت ہو جائے کہ اس نے کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو وہ عورت اس کی رضاعی ماں ہو گی اور اس عورت کی بیٹی اس کی رضاعی بہن ہو گی۔ اس کے ساتھ نکاح حرام ہو گا کیونکہ جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہی رضاعت سے بھی حرام ہیں۔

صورت مسئولہ میں ایک مرتبہ دودھ پینے کا ذکر کیا گیا ہے اگر یہ بات درست ہے تو اس لڑکے کا اس لڑکی سے نکاح بالکل درست ہے۔ حرمت رضاعت کی مقدار مکمل نہیں ہوئی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:315

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ