سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) کاہنوں اور نجومیوں سے دریافت کرنے کا حکم

  • 22068
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1357

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرے والد صاحب عرصہ دراز سے نفسیاتی مریض ہیں، اس دوران کئی بار ہسپتال سے بھی رجوع کیا گیا۔ لیکن بعض عزیزوں نے مشورہ دیا کہ فلاں عورت سے رابطہ قائم کریں وہ ایسے امراض کا علاج کر سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ اسے صرف مریض کا نام بتائیں وہ مکمل تشخیص کے بعد علاج تجویز کر دے گی۔ کیا ہمارے لیے ایسی عورت کے پاس جانا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عورت اور اس جیسی (دوسری) عورتوں کے پاس جانا اور ان کی تصدیق کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا تعلق ان کاہنوں اور نجومیوں سے ہے جو علاج کے لیے جنوں سے مدد لیتے اور علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

((مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبِعِينَ لَيْلَةً)  ) (صحیح مسلم و مسند احمد)

’’ جو شخص کسی نجومی کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد گرامی ہے:

((مَنْ أَتَى عَرَّافًا أَوْ كَاهِنًا فَسَأَلَهُ فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)) (سنن اربعة، مستدرك حاکم، مسند بزار، المعجم الاوسط)

’’ جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ۔‘‘

اس مفہوم کی کئی ایک احادیث موجود ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں اور ان کے پاس حاضر ہونے والوں کا انکار واجب ہے۔ ایسے لوگوں سے سوال کرنا اور ان کی تصدیق کرنا بھی ناجائز ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ حکمرانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اعمال کی سزا پا سکیں۔ ایسے لوگوں کو یوں کھلا چھوڑ دینا اسلامی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہونے کے علاوہ ناواقف اور سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دہی کا موجب ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ) (صحیح مسلم)

’’ تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کا معاملہ حکام بالا جیسے کہ گورنر، ادارہ امر بالمعروف یا عدالت کے سامنے پیش کرنا زبان سے منع کرنے کے مترادف اور نیکی و تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کے ضمن میں آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ایسے امور کی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے جن میں ان کی بہتری اور ہر طرح کی برائی سے سلامتی کی ضمانت ہو۔ (آمین)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

عقیدہ  ،صفحہ:39

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ