سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(532) مقروض کی زکوۃ کا حکم

  • 2200
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1624

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی شخص نے ایک لاکھ بنک میں رکھا ہو اور اُس پر سال گزر گیا. لیکن اُس نے تقریباً کم و بیش 70,000 کی رقم قرض دینی ہو تو کیا وہ اس لاکھ روپے کی زکوۃ بھی ادا کرے گا.؟ ازراہ کرم بادلائل جواب مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس كے پاس زكاۃ والا مال ہو، اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر اس كى زكاۃ نكالنا واجب ہے، چاہے وہ مقروض ہى كيوں نہ ہو، علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے؛ اس كى دليل زكوٰۃ كے وجوب كے عمومى دلائل ہيں، كہ جس شخص كے پاس مال ہو اور وہ نصاب كو پہنچے اور سال گزر جائے تو اس پر زكوٰۃ ہو گى چاہے اس كے ذمہ قرض ہى كيوں نہ ہو.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے زكوٰۃ جمع كرنے والے عمال كو زكوٰۃ وصول كرنے كا حكم ديا كرتے اور كسى اور ايك كو بھى يہ حكم نہيں ديا كہ وہ ان سے سوال كريں كہ آيا ان پر قرض ہے يا نہيں ؟

اور اگر قرض زكوٰۃ كے ليے مانع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے عمال كو اہل زكوٰۃ سے استفسار اورسوال كرنے كا حكم ديتے كہ آيا وہ مقروض ہيں يا نہيں"ـ ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ لسماحۃ الشيخ عبد العزيز بن باز ( 14 / 51 ).

اور ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے ايك اور فتوى ميں بھى ايسا ہى كہا ہے ديكھيں: ( 14 / 52 ).

ليكن اگر آپ نے قرض كى ادائيگى اپنے پاس موجود رقم پر سال گزرنے سے قبل كر دى تو جو آپ نے قرض كى ادائيگى ميں رقم صرف كى ہے اس پر زكوٰۃ نہيں ہوگى، بلكہ جو رقم باقى ہے اس پر جب سال گزر جائے اور وہ نصاب كو پہنچتى ہو تو پھر زكوٰۃ ہو گى" ـ

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص كے پاس اصل رقم ايك لاكھ ريال ہے، اور وہ دو لاكھ ريال كا مقروض ہے، اس طرح كہ ہر سال وہ اس ميں سے دس ہزار ريال كى ادائيگى كرتا ہے تو كيا اس پر زكوٰۃ لاگو ہوتى ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

جى ہاں آپ كے ہاتھ ميں جو رقم ہے اس پر زكوٰۃ ہے، يہ اس ليے كہ زكوٰۃ كے وجوب ميں جو دلائل ہيں وہ عام ہيں، اس ميں كسى چيز كا استثنىٰ نہيں، اور نہ ہى مقروض شخص كو اس ميں سے مستثنىٰ كيا گيا ہے، اور جب نصوص عام ہيں تو پھر اس سے زكوٰۃ وصول كرنا واجب ہے.

پھر مال ميں زكوٰۃ واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

" خُذْ مِنْ أَمْوَ‌ٰلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَو‌ٰتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِي" (التوبۃ:103 )

’’ ان كے مال ميں سے صدقہ لے ليجئے، جس كے ذريعہ سے آپ ان كے مالوں كو پاك صاف كرديں، اور ان كے ليے دعا كيجئے، بلا شبہ آپ كى دعا ان كے ليے موجب اطمينان ہے، اللہ تعالى خوب سنتا اور خوب جانتا ہے ‘‘

اور بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ رضى اللہ تعالى كو يمن روانہ كيا تو انہيں فرمايا:

" انہيں يہ بتانا كہ اللہ تعالى نے ان كے اموال ميں ان پر صدقہ فرض كيا ہے"

لہذا اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا كہ مال ميں زكوٰۃ ہے، نہ كہ انسان كے ذمہ ميں، اور قرض انسان كے ذمہ ہے، لہذا يہاں تو جہت ہى مختلف ہے، اس ليے كہ آپ كى ملكيت ميں جو مال ہے زكوٰۃ اس پر واجب ہے، اور قرض آپ كے ذمہ واجب ہے، تو اس زكوٰۃ كا گوشہ اور ہے، اور اس قرض كا اور.

لہذا آدمى كو اپنے رب سے ڈرنا چاہيے اور اس كے پاس جو كچھ ہے اس كى زكوٰۃ نكالے، اور اپنے ذمہ قرض كى ادائيگى ميں اللہ تعالى سے مدد طلب كرے، اور يہ دعا كرتا رہے:

اے اللہ ميرا قرض ادا كردے، اور مجھے فقر سے محفوظ ركھ.

اور ہو سكتا ہے بلکہ یقینی بات ہے كہ اپنے پاس مال كى زكوٰۃ ادا كرنے سے اس كے مال ميں بركت ہو اور وہ زيادہ ہو جائے، اور وہ اپنے قرض سے چھٹكارا حاصل كرلے، اور زكوٰۃ كى عدم ادائيگى اس كے فقر كا سبب بن جائے، اور اس كا يہ خيال كرنا كہ وہ ہميشہ ضرروت مند ہے اور وہ اہل زكوٰۃ ميں سے نہيں، اور اسے اللہ عزوجل كا شكر ادا كرنا چاہيے كہ اللہ نے اسے دينے والوں ميں بنايا ہے، نہ كہ لينے والوں ميں سے.ـ ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 39 ).

اور شيخ رحمہ اللہ تعالى ايك دوسرے فتوىٰ ميں اسى مسئلہ كے متعلق كہتے ہيں:

’’ ليكن اگر قرض كا مطالبہ فورى ہو اور وہ اسے ادا كرنا چاہتا ہو تو پھر ہم اس وقت يہ كہتے ہيں كہ: اپنے قرض كى ادائيگى كرو، اور پھر باقى بچنے والا مال اگر نصاب كو پہنچتا ہے تو اس كى زكوٰۃ ادا كرديں‘‘ ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 38 ).

اس كى تائيد اس سے بھى ہوتى ہى جو حنابلہ كے فقہاء نے فطرانہ كے بارہ ميں كہا ہے:

ان كا قول ہے: اسے قرض نہيں روكتا ليكن اگر اس كا مطالبہ كيا جا رہا ہو.

اور اسى طرح عثمان رضى اللہ تعالى عنہ سے اثر مروى ہے: وہ رمضان المبارك ميں كہا كرتے تھے:

" يہ تمہارى زكوٰۃ كا مہينہ ہے، لہذا جس پر قرض ہو وہ اسے ادا كرے"

تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ اگر قرض فى الحال ہو اور وہ اسے ادا كرنا چاہتا ہو تو اسے زكوٰۃ پر مقدم كيا جائے گا، ليكن جو قرضے مؤجل ہيں يعنى ان كى ادائيگى كا وقت دور ہے تو وہ زكوٰۃ كى ادائيگى ميں بلا شك و شبہ مانع نہيں.ـ

اور مستقل فتوىٰ كيمٹى كے فتاوىٰ جات ميں ہے:

’’ علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ قرض زكوٰۃ كے ليے مانع نہيں ہے، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے عمال كو زكوٰۃ لينے كے ليے روانہ كيا كرتے تھے اور انہيں يہ نہيں كہتے تھے كہ ديكھنا وہ مقروض ہيں يا نہيں‘‘ـ واللہ اعلم .

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ