سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و قدر کا وسیلہ

  • 21787
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1426

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت ،شرف،قدرومنزلت کے وسیلے کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ:

"توسلوا بجاهي فان جاهي عند الله عظيم"

’’میری عزت وشرف کا وسیلہ مانگو،اس لیے کہ میری عزت ،قدر اللہ کے ہاں عظیم ہے۔"اور دعا میں"امین امين بجاه النبي الكريم صلى الله عليه وآله وصحبه وسلم" بھی  پڑھتے ہیں۔وضاحت فرمادیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث بے اصل ہے۔(سلسلہ الضیعفہ :22)

اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت،قدر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقام اللہ کےہاں بہت زیادہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام  کی تعریف کی:

﴿ وَكانَ عِندَ اللَّهِ وَجيهًا ﴿٦٩﴾... سورةالاحزاب

’’وہ اللہ کےہاں بہت عزت والا تھا۔‘‘

اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سیدنا موسیٰ علیہ السلام  سے افضل  ہونے کے ساتھ بغیر کسی شک وشبہ کے اللہ کے ہاں موسیٰ علیہ السلام  سےزیادہ شرف ومنزلت والے تھے لیکن یہ بات اور ان کی عزت ومقام کاوسیلہ الگ معاملہ ہے۔انہیں آپس میں خلط کرنا مناسب نہیں۔جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی "جاہ" کے وسلیے سے دعا کرنے والے کا اگر یہ مقصد ہوتا ہے کہ اس سے دعا کی قبولیت کی امید ہے تو یہ بات بعید از عقل ہے،کیونکہ قبولیت دعا غیبی امور سے ہے جسے عقل سے نہیں پایا جاسکتا' لہذا اس بارے میں کسی صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔البتہ ایسا ممکن نہیں۔

اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے وسیلہ سے متعلق احادیث یا تو صحیح ہیں یا ضعیف۔

بہرحال صحیح احادیث سے ان کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔مثلاً استسقاء میں اور نابینے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا وسیلہ۔تو درحقیقت یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا کا وسیلہ ہے ناکہ آپ کی عزت اور ذات کا۔اب جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  الرفیق الاعلیٰ کے پاس چلے گئے ہیں تو آپ کی دعا سے توسل بھی ناممکن ہے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد بھی ناممکن وناجائز ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں استسقاء کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو وسیلہ بنایا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو نہیں' اس لیے کہ وہ مشروع وسیلہ کے معنی سے واقف تھے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا(ان کی زندگی میں) سے وسیلہ ہے جوہم نے بیان کیا ہے ۔تبھی تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا کی دعا کووسیلہ(ذریعہ) بنایا جو کہ ممکن اور مشروع ہے۔

اسی طرح یہ بھی منقول نہیں کہ کسی نابینا نے اس نابینے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی دعا کو وسیلہ بنایا ہو۔اسلیے کہ اصل راز اس نابینا کی دعا۔

"اے اللہ! میں تیرے نبی'نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذ ریعے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔"

میں نہیں بلکہ بڑا راز اس نابینا کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی د عا ہے۔جس کا تقاضا اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آپ سے کیاتھا۔جیسا کہ اس کی دعا سے عیاں ہے:

"اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ"

’’اے اللہ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت'میرے بارے میں قبول فرما۔‘‘

الغرض حدیث کا سارا موضوع دعا پر مبنی ہے۔جیسا کہ اس مختصر وضاحت سے قارئین کرام پر واضح ہوگیا ہے۔

حدیث اعمی کا بدعی وسیلہ سے کوئی تعلق نہیں۔لہذاامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کا انکار کرتے ہوئے فرمایا:جیسا کہ"الدرالمختار"وغیرہ کتب حنفیہ میں!"میں اللہ تعالیٰ سے اللہ کی ذات کے علاوہ(کسی اور ذریعے سے) سوال کوناپسند کرتاہوں۔"

رہا زاہد کوثری کا اپنے"مقالات ص 381"پر یہ کہنا کہ:

"تاریخ بغداد میں صحیح سندکے ساتھ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کو وسیلہ بنانے کا ذکر ہے۔"

تو یہ کوثری کے مبالغے'بلکہ مغالطے میں سے ہے۔اس لیے کوثری نے جس کی طرف اشارہ کیا ہے وہ علامہ بغدادی نے(تاریخ بغداد 1/123) میں"عمراسحاق بن ابراہیم از علی بن سیمون از شافعی"سند سے ذکر کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کو علی بن میمون نے یہ کہتے ہوئے سنا:

"بے شک میں ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے تبرک لیے ہوئے قبر کی زیارت کے لیےآتا ہوں۔

جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو دورکعات نمازادا کرکے ان کی قبر کی طرف آتا ہوں اور امام صاحب کی قبر کے قریب اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں'وہ ضرور مجھ سے دور(دعا کے ذریعے) ہوتے ہی پوری ہوجاتی ہے۔"

یہ روایت ضعیف باطل ہے۔اس لیے کہ عمر بن اسحاق بن ابراہیم غیر معروف ہے اور اس کا ذکر کتب رجال میں نہیں ملتا۔ممکن ہے کہ یہ"عمرو بن اسحاق بن ابراہیم بن حمید بن السکن ابومحمد التونسی"ہے جس کا ترجمہ علامہ خطیب بغدادی(12/226) نے کرتے ہوئے ذکر کیا کہ وہ بخارا کا رہنے والا ہے جوبغداد میں 341 میں آیا۔

اس کے علاوہ علامہ خطیب نے جرح وتعدیل ذکر نہیں کی'لہذا یہ مجہول الحال ہے،لیکن درست نہیں۔کیونکہ اس کی اسناد"علی بن میمون" کی وفات 247 ھ کی ہوئی،اس طرح ان دونوں کی وفات کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے اور ان کی ملاقات بعیدہے۔

لہذا یہ  روایت ضعیف ہے جس کے صحیح ہونے پرکوئی دلیل نہیں۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے"اقتضاء الصراط المستقیم ص:165"میں اس روایت کا معنی ذکر کرکے اسے باطل ثابت کیا ہے۔

اور توسل کے متعلق دوسری قسم کی احادیث ضعیف ہیں۔(نظم الفرائد:1/74۔72)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

ایمان کے مسائل کا بیان وعده "وعید" تارک الصلاۃ کاحکم صفحہ:109

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ