سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) بينكوں کے ساتھ معاملات

  • 21613
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 817

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہت سے لوگ بینکوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں جس میں کبھی حرام معاملات مثلاً سودی کاروبار بھی شامل ہوتے ہیں کیا اس طرح کے مال میں زکاۃ ہے؟ اور اگر ہے تو اس کے نکالنے کا طریقہ کیا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی کاروبار کرنا حرام ہے خواہ وہ بینک کے ساتھ ہو یا غیر بینک کے ساتھ سودی کاروبار سے جو فائدہ حاصل ہو وہ کل کا کل حرام ہے اور صاحب مال کی ملکیت نہیں اس لیے اگر اس نے سود کی حرمت جانتے ہوئے وہ مال حاصل کر لیا ہے تو اسے خیر کے کاموں میں صرف کردینا ہو گا لیکن اگر ابھی سودی منافع اس نے حاصل نہیں کئے ہیں تو اسے اپنا صرف اصل مال (راس المال)لے کر باقی چھوڑ دینا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبو‌ٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورةالبقرة

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (278) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘

لیکن اگر کسی نے سود کی حرمت نہ جانتے ہوئے سودی منافع حاصل بھی کر لیے تو یہ اس کی ملکیت ہیں اپنے مال سے اس کو الگ کرنا اس کے لیے ضروری نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبو‌ٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّبو‌ٰا۟ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبو‌ٰا۟ فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَبِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَن عادَ فَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢٧٥﴾... سورةالبقرة

’’سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔‘‘

ایسے شخص کو جس طرح اپنے اس مال کی زکاۃ  دینی ہوگی جس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے اسی طرح اس مال کی زکاۃ بھی دینی ہوگی جو سودی منافع کے علاوہ ہیں اور اس میں اس کا وہ مال بھی داخل ہے جس میں سود کی حرمت جاننے سے پہلے سودی منافع شامل ہوگئے ہیں کیونکہ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں وہ اس کا مال ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:176

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ