سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) میت کو قبر میں اتارنے کا طریقہ

  • 21384
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 4912

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کو قبر میں کیسے اتارا جائے؟ نیز میت کو اتارتے وقت بسم اللہ و علی ملۃ رسول اللہ کی کیا حیثیت ہے۔ (ابو ہاشم۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو جس وقت قبر میں اتارنا ہو تو سنت یہ ہے کہ پاؤں کی جانب سے اتارا جائے۔ ابو اسحاق سے روایت ہے کہ:

" أوصى الحارث أن يصلى عليه عبدالله بن يزيد فصلى عليه ثم ادخله القبر من قبل رجلى القبر وقال هذا من السنة "

(سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز، باب فی المیت یدخل من قبل رجلیہ (3211) بیہقی 4/54 ابن ابی شیبہ مطبوعہ ھند 3/328)

"حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز جنازہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں۔ انہوں نے اس کا جنازہ پڑھا۔ پھر ان کو قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور فرمایا: یہ سنت میں سے ہے۔"

امام بیہقی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

" هذا اسناد صحيح وقد قال هذا من السنة فصار كالمسند "

یہ سند صحیح ہے مزید کہا: یہ سنت میں سے ہے۔ اور مسند حدیث کی طرح ہے۔ صحابی رسول کا کسی امر کے بارے میں یوں کہنا کہ یہ سنت میں سے ہے، اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی سنت ہوتی ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں:

" واصحاب النبى صلى الله عليه وسلم لا يقولون: السنة الا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ان شاء الله "

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سنت کا لفظ صرف سنت رسول پر ہی بولتے ہیں۔ ان شاءاللہ (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد دوم ص: 245)

امام محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ:

" كنت مع انس فى جنازة فامر بالميت فادخل من قبل رجليه "

(ابن ابی شیبہ 3/327 مطبوعہ ھند مسند احمد 1/429)

"میں ایک جنازہ میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے میت کے متعلق حکم دیا وہ پاؤں کی جانب سے قبر میں داخل کی گئی۔"

عمرو بن مہاجر سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا جب بیٹا فوت ہوا تو انہوں نے بھی پاؤں کی طرف سے قبر میں داخل کرنے کا حکم دیا۔

(ابن ابی شیبہ 3/328)

سنن ابن ماجہ (1552) میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف سے قبر مبارک میں رکھا گیا لیکن یہ روایت عطیہ عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔

مندرجہ بالا آثار صحیحہ سے معلوم ہوا کہ میت کو قبر میں پاؤں کی جانب سے اتارنا مسنون ہے اور میت کو قبر میں اتارتے وقت: " بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم یا بسم الله وعلى ملة رسول الله " پڑھنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے مُردوں کو قبروں میں اتارو تو کہو۔ بسم اللہ و علی سنۃ (اور ایک روایت میں ملۃ) رسول اللہ۔

(سنن ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی الدعا للمیت اذا وضع فی قبرہ (3213) ابن ماجہ (1550) ترمذی (1046 صحیح ابن حبان (773) المستدرک للحاکم (1/366 بیہقی 4/55 المنتقی لابن الجارود (548) اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن اور امام حاکم و امام ذھبی نے شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ مسند احمد 2/27'40'59'69، مسند عبد بن حمید (816) عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (1088) مسند ابی یعلی (5755)

اس حدیث کا ایک صحیح شاہد البیاضی رضی اللہ عنہ سے المستدرک للحاکم 1/366 میں موجود ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

" الميت اذا وضع فى قبره فليقل الذين يضعونه حين يوضع في اللحد : باسم الله وبالله ، وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم "

"جب میت کو قبر میں رکھا جائے تو اس کو لحد میں رکھتے وقت رکھنے والے کہیں۔"

" باسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم "

لہذا یہ کلمات کہنا صحیح حدیث کی رو سے مسنون ہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ204

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ