سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) نماز عید کا شرعی طریقہ

  • 21378
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 13985

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز عید کے لئے پہلی رکعت میں سات تکبیریں جب کہ دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں مشروع ہیں جبکہ دیوبندی دونوں رکعات میں تین تین تکبیریں ادا کرتے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمارا طریقہ صحیح احادیث کے موافق ہے، حدیث سے واضح کیجئے کہ نماز عید کے ادا کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ (ذوالفقار احمد۔ راھوالی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عید کی نماز کا شرعی طریقہ درج ذیل ہے۔

نماز عیدین باہر عید گاہ میں ادا کرنا سنت ہے، یہ نماز اذان اور تکبیر کے بغیر ادا کی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب العیدین، 888)

عید کی نماز کا وقت نماز اشراق والا ہے۔(سنن ابی داؤد، باب وقت الخروج الی العید 1135)

عید گاہ کو جاتے ہوئے تکبیرات کہنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے۔ (ابن ابی شیبہ 1/489)

اس کا طریقہ یہ ہے کہ وضو کر کے قبلہ رخ ہوں اور دو رکعت نماز عید کی نیت کر کے اللہ اکبر کہیں رفع یدین کرتے ہوئے ہاتھ سینے پر باندھ لیں اور جس طرح عام نماز ادا کرتے ہیں اسی طرح ادا کریں فرق صرف اس قدر ہے کہ اس نماز میں زائد تکبیریں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

(ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر في الفطر والأضحى سبعا وخمسا سوى تكبيرتي الركوع)

"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں سات اور پانچ تکبیریں کہیں، رکوع کی دو تکبیروں کے علاوہ۔"

((ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی کم یکبر الامام فی صلاۃ العیدین 1280 ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب التکبیر فی العیدین 1150 دارقطنی، کتاب العیدین، 2/57'1710'1704 بیہقی 3/276 المسند لابن وھب ق 27/1 کتاب العیدین للفریابی، باب ما روی فی تکبیر الامام بالصلاۃ فی العید و کم یکبر، 107 شرح معانی الآثار 2/399 ارواء الغلیل 3/101'639 التحقیق لابن الجوزی 1/508))

یہ روایت عبداللہ بن لھیعہ کی وجہ سے حسن ہے۔ حافظ ابن حجر، عسقلانی فرماتے ہیں:

" صدوق من السابعة خلطه بعد احتراق كتبه و رواية ابن المبارك و ابن وهب عنه اعدل من غيرهما وله فى مسلم بعض شئ مقرون "((تقریب ص: 186))

"یہ ساتویں طبقے کا صدوق راوی ہے اس کی کتابیں جلنے کے بعد اسے اختلاط ہو گیا تھا اور عبداللہ بن المبارک اور عبداللہ بن وھب کی اس سے روایت دوسروں کی نسبت زیادہ انصاف پر مبنی ہے اور صحیح مسلم میں اس کی بعض روایتیں متابعت میں مروی ہیں۔"

امام ابن حبان فرماتے ہیں: یہ صالح راوی تھا لیکن ضعفاء سے تدلیس کر جاتا تھا پھر اس کی کتب جل گئیں اور ہمارے اصحاب کہتے تھے۔

" سماع من سمع منه قبل احتراق كتبه مثل العبادلة عبدالله بن وهب، و ابن المبارك، و عبدالله بن يزيد المقرى، و عبدالله بن مسلمه القعبنى فسماعهم صحيح "

جس راوی نے اس سے اس کی کتب جلنے سے پہلے سماع کیا اس کا سماع صحیح ہے جیسے عبادلہ یعنی عبداللہ بن وھب، عبداللہ بن المبارک، عبداللہ یزید بن المقری اور عبداللہ بن مسلمہ القعنی کی روایت:

(نهاية الاغتباط بمن رمى من الرواة بالاختلاط) (ص: 194)

اور مذکورہ روایت اس سے عبداللہ بن وھب نے ہی بیان کی ہے لہذا ان کی روایت اس سے قبل از اختلاط ہے اور سنن دارقطنی 1704 میں اسحاق بن عیسی کی سند میں عبداللہ بن لھیعہ کی خالد بن یزید سے تصریح بالسماع موجود ہے اور اسحاق بن عیسی کا سماع بھی عبداللہ بن لھیعہ سے قبل از اختلاط ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے۔ (میزان الاعتدال 2/477)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عبداللہ بن لھیعہ کی خالد بن یزید عن ابن شہاب والی روایت کو راجح اور صحیح قرار دیا ہے اس لئے کہ یہ اس سے عبداللہ بن وھب نے بیان کی ہے۔ (ارواء الغلیل 3/107'108)

امام ذھلی نے بھی اس طریق کو محفوظ قرار دیا ہے۔

(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 2/ ق 107/ ب)

نوٹ: دار العلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی سید مہدی حسن شاہ جہانپوری عبداللہ بن لھیعہ کی توثیق امام احمد اور امام مالک سے نقل کر کے لکھتے ہین کہ "یہ بھی نہ ہو تو ان کی حدیث درجہ حسن سے گری ہوئی نہیں ہے چنانچہ ترمذی وغیرہ سے ظاہر ہے۔" (مجموعہ رسائل، ص 322)

اسی طرح ابن لھیعہ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "طریق مذکورہ کو ضعیف کہنا ضعیفوں کا کام ہے۔"

(مجموعہ رسائل، ص 323)

ہمارے زیر بحث روایت بھی ابن لھیعہ کے طریق سے ہے اور اس کے قدیم شاگردوں میں سے عبداللہ بن وھب روایت کرتے ہیں لہذا یہ روایت صحیح ہے۔

(2) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

(ان النبى صلى الله عليه وسلم كبر فى صلاة العيد سبعا و خمسا)

"بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز میں سات اور پانچ تکبیریں کہی ہیں۔"

((ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی کم یکبر الامام فی صلاۃ العیدین، کتاب العیدین للفریابی 135، المنتقی لابن الجارود 262، ابوداؤد، کتاب الصلاۃ باب التکبیر فی العیدین 1151'1152، شرح معانی الآثار 2/399، مسند احمد 2/80، بیہقی 3/280، دارقطنی 1712'1713'1714، عبدالرزاق 3/292'5677، ابن ابی شیبہ، باب فی التکبیر فی العیدین و اختلافھم فیہ 1/493'5694، التحقیق لابن الجوزی 1/508، الاوسط لابن المنذر 4/279)

اس حدیث کو امام احمد امام علی ابن عبداللہ مدینی، امام بخاری، امام نووی، حافظ عراقی اور حافظ ابن حجر نے صحیح قرار دیا ہے۔

(التلخیص الحبیر 2/84 المجموع للنووی 5/20، الفتوحات الربانیۃ 4/241)

اس کی سند میں عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

"صدوق يخطى و يهم" (تقریب ص: 180)

امام یحیی بن معین نے فرمایا: صالح، امام ابن عدی فرماتے ہیں:

"يروى عن عمرو بن شعيب احاديثه مستقيمة وهو ممن يكتب حديثه" امام دارقطنی فرماتے ہیں: "طائفى يقنبر به"

امام عجلی فرماتے ہیں: "ثقة"

ابن شاہین فرماتے ہیں: "صالح"

(تھذیب التھذیب 3/194، الکامل لابن عدی 4/1485، تاریخ اسماء الثقات لابن شاھین رقم 655، معرفۃ الثقات للعجلی 2/45، کتاب الثقات لابن حبان 7/40)

البتہ بعض آئمہ نے اس پر کلام بھی کیا ہے اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس راوی کی روایات متابقات و شواھد میں پیش کی جا سکتی ہیں۔

نوٹ:

اس قسم کے روات کے متعلق دیکھیں فتاوی رضویہ 5/179'180'184 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور۔

(قواعد فی علوم الحدیث ظفر احمد تھانوی، ص 215 مطبوعہ کراچی ص: 72 تا 75)

(3) عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكبر في العيدين في الأولى سبعا قبل القراءة ، وفي الآخرة خمسا قبل القراءة)

"بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور پچھلی رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔"

(ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی التکبیر فی العیدین 536، ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا 1279، صحیح ابن خزیمہ 2/346'1439'138) مسند عبد بن حمید 290) الاوسط لابن المنذر 4/279 دارقطنی 1715 المعجم الکبیر 17/24'15 الکامل لابن عدی 6/2079 بیہقی 3/286 شرح السنۃ 4/309 التحقیق لابن الجوزی 1/508)

اس کی سند میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی متروک راوی ہے۔

(المغنی فی الضعفاء 2/227، میزان الاعتدال 3/406، کتاب المجروحین 2/221 تقریب 285، الکامل فی ضعفاء الرجال 6/2078، الجرح والتعدیل 7/758)

لیکن یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے دو شواہد کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔

(4) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(التكبير فى العيدين فى الركعة الاولى سبع تكبيرات وفى الاخيرة خمس تكبيرات)

"عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور پچھلی رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔"

(سنن الدارقطنی 1716، التحقیق لابن الجوزی 818، 1/59 مسند حارث بن ابی اسامہ 1/ق، 26/ ب معانی الآثار للطحاوی)

اس کی سند میں فرج بن فضالۃ ضعیف راوی ہے۔

(المغنی فی الضعفاء 2/186 میزان الاعتدال 3/343، تقریب، ص: 274)

(5) طلحہ بن یحیی نے کہا:

مجھے مروان نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا تاکہ میں ان سے استسقاء کی سنت کے بارے پوچھوں تو انہوں نے فرمایا: نماز استسقاء کا طریقہ نماز عیدین کی طرح ہے سوائے اس بات کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر پلٹی ہے۔ اس کا دایاں بائیں پر اور بایاں دائیں پر کر دیا اور دو رکعت نماز پڑھی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی قراءت کی اور دوسری رکعت میں "هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ" کی قراءت کی اور اس میں پانچ تکبیریں کہیں۔

(و سنن الدارقطنی، کتاب الاستسقاء 1782، مستدرک حاکم 1/326 بیہقی 3/348 التحقیق لابن الجوزی 844' 1/518'519)

اس کی سند میں محمد بن عبدالعزیز ضعیف ہے۔

(المغنی فی الضعفاء 1/340) اور اس کا باپ مجہول ہے۔ (التعلیق المغنی 2/66'67)

(6) امام طبرانی نے المعجم الکبیر 10/357'10708) میں سلیمان بن ارقم از زھری از سعید بن المسیب از ابن عباس روایت کیا ہے کہ:

"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكبر فى العيدين اثنتا عشرة فى الاولى سبعا وفى الثانية خمسا وكان يذهب من طريق ويرجع من اخرى"

"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں بارہ تکبیریں کہتے تھے پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ اور ایک راستے سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس پلٹتے تھے لیکن اس کی سند میں سلیمان بن ارقم ضعیف راوی ہے۔" (مجمع الزوائد 2/204)

(7) نافع مولی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:

"شهدت الأضحى والفطر مع أبي هريرة فكبر في الركعة الأولى سبع تكبيرات قبل القراءة ، وفي الآخرة خمس تكبيرات قبل القراءة"

(مؤطا امام مالک، کتاب العیدین، باب ما جاء فی التکبیر القراۃ فی صلاۃ العیدین ص 162، کتاب الامام، باب التکبیر فی صلاۃ العیدین (1/270 بیہقی 3/288 عبدالرزاق 3/292'568 ابن ابی شیبہ 1/494، کتاب العیدین للفریابی، 112'113'114'115'109'110'111)

"میں نماز عید الاضحیٰ اور نماز عید الفطر میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضر تھا انہوں نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں قراءت سے پہلے اور پچھلی رکعت میں پانچ تکبیریں قراءت سے پہلے کہیں۔"

بیہقی میں شعیب ابن ابی حمزہ کی نافع سے روایت میں ہے کہ: "وهى السنة" یہ سنت طریقہ ہے۔ اس اثر کی سند بالکل صحیح بلکہ اصح الاسانید ہے۔

(8) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ يُكَبِّرُ مَرَّةً وَاحِدَةً ، تَفْتَتِحُ بِهَا الصَّلاةُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ سِتًّا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُكَبِّرُ خَمْسًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ " (کتاب العیدین للفریابی 128)

"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عید الفطر کی نماز میں پہلے ایک تکبیر کہے جس کے ساتھ نماز کا افتتاح کیا جائے پھر چھ تکبیریں کہے پھر قراءت اور رکوع کرے پھر (رکعت سے فارغ ہو کر) کھڑا ہو پانچ تکبیریں کہے پھر قراءت کرے پھر تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے۔"

(8) "عن ابن عباس انه كبر ثنتى عشرة تكبيرة فى يوم عيد"

"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عید کے دن میں 12 تکبیریں کہیں۔"

(احکام العیدین للفریابی 120 الاوسط لابن المنذر 4/274 عبدالرزاق 5676، 3/291، بیہقی 3/289

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 12 تکبیریں کئی اور طرق سے بھی مروی ہیں۔ مندرجہ ذیل بالا احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عیدین کی نماز میں قراءۃ سے قبل بارہ تکبیریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کہا کرتے تھے اور ان کے مطابق اہل الحدیث کا شروع سے لے کر آج تک عمل ہے۔

احناف کا موقف یہ ہے کہ نماز عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تین زائد تکبیریں ہیں ہر تکبیر میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لئے جاتے ہیں دوسری رکعت میں قراءت کے بعد رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہی جائیں چوتھی تکبیر کے بعد رکوع اور باقی نماز مکمل کی جاتی ہے۔ گویا پہلی رکعت میں تکبیر افتتاح اور تین زائد تکبیریں کل چار تکبیریں گنی جاتی ہیں، اسی طرح دوسری رکعت میں تین زائد تکبیریں اور رکوع کی تکبیر شمار کر کے کل چار گنی جاتی ہیں۔ اس کے لئے ان کے دلائل درج ذیل ہیں۔

(1) سعید بن العاص نے حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی کتنی تکبیریں کہتے تھے حضرت ابو موسی نے بتایا کہ آپ چار تکبیریں کہتے تھے۔ جنازہ کی چار تکبیروں کی طرح حضرت حذیفہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی، ابو موسیٰ نے بتایا کہ میں خود بھی جب بصرہ کا گورنر تھا تو ایسے کرتا تھا۔

(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب التکبیر فی العیدین 1153، ابن ابی شیبہ 1/493'5685، الاوسط لابن المنذر 4/277'2166 بیہقی 3/289 شرح معانی الآثار 2/439 کتاب الزیادات، باب صلوۃ العیدین کیف التکبیر فیھما)

اس روایت کی سند کمزور ہے اس میں درج ذیل علل ہیں۔ اس میں ابو عائشہ راوی مجہول ہے امام ذھبی فرماتے ہیں: "غیر معروف" میزان الاعتدال 4/543 امام ابن حزم اور امام ابن القطان نے بھی اسے مجہول قرار دیا ہے۔ تہذیب التہذیب 6/395، امام ابن القیم نے تہذیب السنن 2/31 میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن الجوزی فرماتے ہیں یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ (العلل المتناھیہ 1/475) علاوہ ازیں ابو عائشہ کے سوا اسے چار ثقہ راویوں نے موقوف روایت کیا ہے جن کے نام یہ ہیں۔

(1) علقمہ (2) اسود (3) عبداللہ بن قیس (4) کردوس

علقمہ اور اسود کی روایت مصنف عبدالرزاق 3/293'5687 عبداللہ بن قیس کی روایت شرح معانی الآثار للطحاوی 2/440 اور کردوس کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ 1/494'5706 میں موجود ہے۔

(2) اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن ثوبان متکلم فیہ ہے امام احمد فرماتے ہیں:

"احاديثه مناكير لم يكن بالقوى فى الحديث" امام یحیی بن معین، عجلی اور ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں "لین" امام نسائی نے ضعیف اور ابن خراش نے کہا "فی حدیثہ لین" امام ابن عدی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے جب کہ علی بن مدینی، عمرو بن علی، دحیم اور ابو حاتم نے ثقہ قرار دیا ہے۔

صالح بن محمد فرماتے ہیں:

"شامى صدوق الا ان مذهبه القدر وانكروا عليه احاديث يرويها عن ابيه عن مكحول"

یہ شامی صدوق مگر قدری ہے اور محدثین نے اس کی ان روایتوں کا انکار کیا ہے جو یہ اپنے باپ کے واسطے سے مکحول سے روایت کرتا ہے۔(تھذیب التھذیب 3/346)

اور زیر بحث روایت اس کی اپنے باپ کے واسطے سے مکحول سے ہے لہذا یہ روایت مرفوعا ضعیف ناقابل حجت ہے جب کہ مکحول خود بارہ تکبیرات کے قائل تھے۔

برد فرماتے ہیں:

"كان مكحول يقول فى الصلاة فى العيدين يكبر سبع تكبيرات ثم يقرأ ثم يكبر خمس تكبيرات ثم يقرأ"

(احکام العیدین للفریابی 122، ابن ابی شیبہ 1/495'5715)

"مکحول عیدین کی نماز کے بارے کہتے تھے کہ نمازی سات تکبیریں کہے پھر قراءت کرے پھر دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہے پھر قراءت کرے۔"

یہ روایت بیہقی 3/290 میں ایک اور سند سے بھی مروی ہے جس میں مکحول ابو موسی کے قاصد سے روایت کرتے ہیں اور یہ قاصد مجہول ہے۔

اسی طرح مکحول عن سے روایت کرتے ہیں اور احناف کے ہاں بالخصوص ان کی عن والی روایت کمزور ہوتی ہے۔ جیسا کہ احسن الکلام وغیرہ میں موجود ہے۔

علاوہ ازیں اس کی سند میں نعیم بن حماد ہیں جن پر احناف کافی لے دے کرتے ہیں۔

امام طحاوی نے "شرح معانی الآثار 4/345 طبع مصر اور 2/438 طبع پاکستان میں بطریق عبداللہ بن یوسف از یحیی بن حمزہ از الوضین بن عطاء از القاسم ابو عبدالرحمٰن از بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روایت ذکر کی ہے کہ:

"صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ , فَكَبَّرَ أَرْبَعًا , وَأَرْبَعًا , ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ , قَالَ: لَا تَنْسَوْا , كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ , وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ , وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ"

"ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی آپ نے چار چار تکبیرات کہیں پھر نماز سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: نہ بھولنا عید کی تکبیرات جنائز کی تکبیرات کی طرح ہیں آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور اپنا انگوٹھا دبا لیا۔"

یہ روایت نقل کر کے امام طحاوی حنفی فرماتے ہیں:

"هذا حديث حسن الاسناد و عبدالله بن يوسف و يحيي بن حمزه والوضين والقاسم كلهم اهل رواية، معروفون لصحة الرواية"

"یہ حدیث حسن الاسناد ہے اور عبداللہ بن یوسف، یحیی بن حمزہ، الوضین بن عطاء اور قاسم ابو عبدالرحمٰن سب روایت کے اہل ہیں اور صحت روایت کے ساتھ معروف ہیں۔"

اس کی سند میں اگرچہ الوضین بن عطاء پر کچھ کلام کیا گیا اور ابن ترکمانی حنفی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ "هوواه" یہ کمزور راوی ہے۔ (الجوھر النقی 1/118)

لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث ہے جس طرح امام طحاوی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے اسی طرح علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2997 میں ذکر کیا ہے اور امام طحاوی کی تائید کی ہے۔

علاوہ ازیں آثار صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، طحاوی میں موجود ہے، اس کا ذکر احناف کے دلائل کے ضمن میں پہلی دلیل کے تحت گزر چکا ہے۔

(4) عبداللہ بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ:

"صلى بنا ابن عباس يوم عيد فكبر تسع تكبيرات خمسا في الأولى وأربعا في الآخرة ، والى بين القراءتين"

(ابن ابی شیبہ 1/495'5708، شرح معانی الآثار للطحاوی 2/439 ارواء الغلیل 3/111)

"ہمیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز پڑھائی انہوں نے نو تکبیریں کہیں پہلی رکعت میں پانچ اور پچھلی رکعت میں چار تکبیریں کہیں اور دونوں رکعتوں میں قراءت پے در پے کی۔"

اس کی سند بھی صحیح ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 12 تکبیرات والی روایت پہلے گزر چکی ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایات کے بارے فرماتے ہیں:

"يمكن أن يقال : ان الروايات كلها صحيحة عن ابن عباس ، وانه كان يرى التوسعة في الأمر ، وانه يجيز كل ما صح عنه مما ذكرنا والله أعلم" (ارواء الغلیل 3/112)

"ممکن ہے کہ یوں کہا جائے: بلاشبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تمام روایات صحیح ہوں اور وہ اس مسئلہ میں وسعت کے قائل ہوں اور جو صحیح روایات ہم نے ان سے ذکر کی ہیں وہ یہ سب جائز قرار دیتے ہوں، واللہ اعلم۔"

علامہ البانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 6/1263'1264 میں فرماتے ہیں:

"والحق ان الامر واسع فى تكبيراتالعيدين، فمن شاء كبر أربعا أربعا بناء على هذا الحديث والآثار التي معه، ومن شاء كبر سبعا في الأولى، وخمسا في الثانية بناء على الحديث المسند الذي أشار إليه البيهقي، وقد جاء عن جمع من الصحابة، يرتقي بمجموعها إلى درجة الصحة، كما حققته في " إرواء الغليل" (رقم، 639)

"حق بات یہ ہے کہ تکبیرات عیدین میں معاملہ وسعت والا ہے جو چاہے چار چار تکبیرات کہے اس حدیث (طحاوی) اور اس کے ساتھ آثار پر بنیاد رکھتے ہوئے اور جو چاہے پہلی رکعت میں سات اور پچھلی رکعت میں پانچ تکبیرات کہے۔ اس مستند حدیث پر بنا کرتے ہوئے جس کی طرف امام بیہقی نے اشارہ کیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت سے مروی ہے اور مجموعی لحاظ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے جیسا کہ میں نے ارواء الغلیل رقم الحدیث (639) میں تحقیق کی ہے۔

مزید فرماتے ہیں:

"و الحق أن كل ذلك جائز ، فبأيهما فعل فقد أدى السنة ، و لا داعي للتعصب و الفرقة ، و إن كان السبع و الخمس أحب إلي لأنه أكثر" (سلسلة الاحادیث الصحیحه 6/1264)

حق بات یہ ہے کہ تکبیرات عیدین ہر دو طرح جائز ہیں جس صورت پر بھی جس نے عمل کیا اس نے سنت کی ادائیگی کر لی، تعصب اور فرقت کا داعیہ نہیں ہونا چاہیے۔ 12 تکبیرات مجھے زیادہ پسند ہیں اس لیے کہ یہ زیادہ ہیں۔

مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ تکبیرات عیدین میں اہل حدیث اور احناف کے پاس ایسے دلائل صحیحہ موجود ہیں جو دونوں کی تائید کرتے ہیں البتہ اہل حدیث کے دلائل زیادہ اور ان کی نسبت قوی ہیں۔

ضد اور تعصب سے ہٹ کر سوچا جائے تو معاملہ وسعت پر مبنی ہے جس نے کسی بھی صورت پر عمل کر لیا اس کی نماز عید صحیح طور پر ادا ہو گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ضد اور ہٹ دھرمی سے محفوظ فرمائے اور کتاب و سنت کے صحیح دلائل کے تحت رہ کر ہر مسئلہ پر سوچ و بچار کی ہمت عطا فرمائے اور مخالفت در مخالفت سے بچائے۔ آمین

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب العیدین-صفحہ165

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ