سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(578) بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھانجے کا وارث بننا

  • 2036
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1090

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جس کی بیوی اور بچہ نہیں ہے اس کی جائیداد  اڑھائی ایکڑ ہے اس نے عرصہ آٹھ سال سے اپنے ایک بھانجے اور دو بھانجیاں اپنی رونق اور گھر کی آبادی کے لیے اپنے پاس رکھے اب بھانجا مطالبہ کرتا ہے کہ اڑھائی ایکڑ زمین میرے نام لکھوا دو کیا یہ شخص زمین بطور ہبہ بھانجے کے نام لگوا سکتا ہے یا نہیں جب کہ اس شخص کے دو بھائی بھی زندہ ہیں جن میں سے ایک کی اولاد بھی ہے اور ایک بے اولاد۔

(2) کیا یہ شخص زمین فروخت کر کے مکمل رقم راہِ ﷲ خرچ کر سکتا ہے۔

(3) کیا زمین فروخت کر کے کچھ رقم سے فریضہ حج ادا کر کے اور کچھ رقم کا اور کوئی کاروبار کر سکتا ہے ؟

(4) کیا عینی بہن کے نام لکھوا سکتا ہے قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

الجواب بعون اللہ الوہاب ۔ (۱) صورت مسئولہ میں سائل محمد بشیر کلالہ ہیں اور ان کے دو بھائی عینی اور ایک بہن عینی زندہ ہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آخری آیت میں فرمایا :

﴿ وَإِن كَانُوٓاْ إِخۡوَةٗ رِّجَالٗا وَنِسَآءٗ فَلِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۗ ﴾--الانعام176

’’اور اگر کئی شخص ہوں اس رشتہ کے کچھ مرد اور کچھ عورتیں تو ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے‘‘ موجودہ صورت حال میں  محمد بشیر کے بھانجے اور بھانجیاں اس کے وارث نہیں کیونکہ یہ ذوی الارحام میں شامل ہیں اور ذوی الارحام عصبات کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے اس لیے سائل اپنی جائیداد زمین وغیرہ بھانجے اور بھانجیوں کے نام منتقل نہیں کر سکتا ہاں ان کے لیے وصیت کر سکتا ہے وہ بھی اپنی کل جائیداد کے تیسرے حصے تک۔

(2) سارے مال کو فروخت کر کے راہ اللہ میں خرچ کرنے سے وارث محروم ہوتے ہیں اور شریعت میں وارثوں کو محروم کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اس لیے ساری جائیداد فروخت کر کے راہ اللہ میں خرچ نہیں کر سکتا رہا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کر اپنے گھر میں موجود مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جہاد کے لیے پیش کر دینا تو وہ اپنی کل جائیداد نہیں لائے تھے ۔

(3) یہ شرعاً درست ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

(4) عینی بہن کا سائل کی جائیداد میں اللہ تعالیٰ نے ہی حصہ رکھ دیا ہے اس لیے جتنا حصہ اس کا بنتا ہے اتنا اس کے نام لکھا سکتا ہے مگر اس کا حصہ سائل کی وفات سے پہلے متعین نہیں ہو سکتا کیونکہ جائیداد بڑھتی گھٹتی رہتی ہے اور زندگی میں انسان اپنی جائیداد میں تصرف بھی کرتا رہتا ہے اس لیے بہن کے نام بھی نہ لکھوائے وفات کے بعد جو حصہ جس وارث کا بنے گا وہ لے گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

وراثت کے مسائل ج1ص 400

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ