سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(585) غصہ پینے کی فضیلت

  • 20234
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2505

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اس شخص کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو غصہ آنے کے بعد معاف کر دے جبکہ وہ اسے نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔‘‘ کیا یہ حدیث کے الفاظ ہیں، اگر ہیں تو حدیث کی کس کتاب میں ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے البتہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اللہ اسے قیامت کے دن برسرِ مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔‘‘[1]

 واقعی اپنے سے کمزور پر غصہ آئے تو اسے قابو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اصل بہادری یہی ہے کہ ایسے موقع پر غصہ نکالنے کی بجائے معاف کر دیا جائے، اللہ کے ہاں اس کی جزا ہے کہ حوریں تو ہر جنتی کو ملیں گی لیکن غصہ پر قابو پا کر ظلم سے اجتناب کرنے والے کو اپنی پسند کی حوریں منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا، قرآن کریم میں اہل ایمان کی اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ١ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَۚ﴾[2]

’’اور غصہ کو پی جانے والے نیز لوگوں سے درگزر کرنے والے، اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کار لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘  

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے متعلق ان کی حسنِ صفات کی وجہ سے جنت کی ضمانت دی ہے جیسا کہ آپ کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں اس شخص کے لیے جنت کی ایک جانب خوبصورت محل کی ضمانت دیتا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے اگرچہ حق پر ہو۔ اور جنت کے درمیان ایک محل کی، اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے اگرچہ مزاح کے طور پر ہو نیز جنت کی اعلیٰ منازل میں ایک محل اس شخص کے لیے ہے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے۔‘‘ [3]

 معلوم ہوتا ہے کہ سائل کے لیے دونوں احادیث کے الفاظ خط ملط ہو گئے ہیں، بہرحال ہمیں چاہیے کہ مذکورہ اچھی صفات کو اپنے اندر پیدا کریں تاکہ اللہ کے ہاں جنت کی نعمتوں کے حقدار ہوں۔ (واللہ اعلم)


[1] جامع ترمذی، البروالصلہ: ۲۰۲۱؛ ابوداود، الادب: ۴۷۷۷؛ ابن ماجہ، الزہد: ۴۱۸۶۔  

[2] ۳/آل عمران: ۱۳۴۔

[3] ابوداود، الادب: ۴۸۰۰۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:484

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ