سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(578) مشرک کا ذبیحہ

  • 20227
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1461

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشرک کے ذبیحہ کے متعلق کیا حکم ہے؟ یعنی اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے، نیز جو شخص خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور شرک کا ارتکاب بھی کرے ان کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ذبح کرنا بھی ایک عبادت ہے جو مشرک سے قبول نہیں کی جاتی، اس لیے جو بنیادی طور پر مشرک ہیں مثلاً ہندو سکھ اور بدھ مت وغیرہ ان کا ذبیحہ حرام ہے البتہ وہ اہل کتب جو سماوی شریعت کے قائل ہیں قرآنی صراحت کے مطابق ان کا ذبیحہ جائز قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ طَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ١۪ ﴾[1]

’’اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے جائز ہے۔‘‘

 اس آیت کریمہ میں کھانے سے مراد ذبیحہ ہے لیکن اس کے لیے بھی شرط ہے کہ حلال جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے، نزول قرآن کے وقت اہل کتاب کی دو اقسام میں شرک پایا جاتا تھا جیسا کہ قرآن میں ہے کہ یہودی حضرت عزیر علیہ السلام اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، اس کے باوجود ان کے ذبیحہ کو مشروط طور پر ہمارے لیے حلال قرار دیا گیا ہے، اسی طرح دور حاضر کے مسلمان جو معیاری نہیں ہیں البتہ کلمہ گو، نماز و روزہ کے قائل و فاعل ہیں، اگر بظاہر کوئی شرکیہ کام کریں تو ان کا ذبح کردہ جانور حرام نہیں ہو گا، ہاں اگر وہ شرک و بدعت کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہوں۔ ضد اور ہٹ دھرم کے طور پر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے ذبیحہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اگر کسی انسان میں شرک کے اسباب موجود ہوں تو اسے مشرک قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کوئی موانع نہ ہوں، اگر اسباب کے ساتھ کوئی رکاوٹ یا مانع موجود ہو تو انہیں مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی وضاحت ہم نے اپنی تالیف ’’مسئلہ ایمان و کفر‘‘ میں کی ہے، مکتبہ اسلامیہ سے اسے حاصل کر کے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔


[1] ۵/المائدۃ:۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:479

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ