سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(793) بلوغت کے بعد کسی کا عقیقہ کرنا یا ایصال ثواب کے لیے پمفلٹ چھپانا

  • 19641
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1343

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الحمد اللہ میرے ہاں ایک لڑکا اور لڑکی پیدا ہوئی اور ان دونوں کا عقیقہ کرنے کے لیے میرے پاس گنجائش نہیں تھی تو وہ بڑے ہو گئے اور اب 19،16،سال کے ہو گئے ہیں اور میں ان کی والدہ سے الگ ہو چکا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان دونوں کا عقیقہ کرنا ضروری ہے اور میں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا کیونکہ میرے والد نے میرے عقیقے کا اہتمام بھی نہیں کیا تھا تو کیا میں ذخیرہ کرتے ہوئے اپنے تمام کا عقیقہ کر سکتا ہوں؟کیونکہ میں ہر اچھے کام میں اپنی حالت کو درست کرنے کے لیے اللہ عزوجل کے قریب ہونا چاہتا ہوں یا کہ وہ ہم سے ختم ہو چکا ہے اور اس کا ہمیں فائدہ نہیں ہو گا؟ اور کیا اگر میں کچھ پمفلٹ اور کتابچے تیار کرواؤں اور ان کی نشرواشاعت بھی مکمل ہو جائے اس مقصد کے لیے کہ یہ ان کے لیے کہ یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔ہو سکتا ہے کہ وہ ان دونوں کو فائدہ دے کر ان کی حالت کو درست کردے کیا وہ صدقہ جاریہ فائدہ دے گا؟یا میں کون سا کام کروں کہ اللہ مجھے ہدایت دے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکثر علماء کے مذہب کے مطابق عقیقہ سنت ہے صرف اہل ظہواہر اور تابعین میں سے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ   نے اسے واجب  قراردیا ہے اور عقیقہ کو واجب کرنے والے نے سلمان بن عامر الضی رحمۃ اللہ علیہ   کی حدیث سے دلیل لی ہے جسے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے معلق بیان کیا ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور اصحاب سنن نے موصول بیان کیا اور اس کی سند صحیح ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى"[1]

"بچے کے ساتھ عقیقہ ہے اس سے خون بہاؤ اور اس سے گندگی دور کرو۔" فَأَهْرِيقُوا (خون بہاؤ)یہ حکمی فعل ہے اور حکم واجب ہونے کو چاہتا ہے اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور اصحاب سنن کے نزدیک ثابت ہے جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ   نے صحیح کہا ہے اور ایسے ہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ   نے سمرۃ بن جندب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بیان کیا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"كُلُّ غُلاَمٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ"[2]

"ہر بچہ عقیقے کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے اس کے ساتویں دن اس کی طرف سے جانورذبح کیا جائے گا اور اس میں نام رکھا جائے گا اور اس کے سر کو منڈھا یا جائے گا۔"

امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا ہے یعنی جب وہ عقیقہ کیے بغیر فوت ہوجائے تو وہ اپنے والدین کے حق میں سفارش نہیں کرے گا اور کچھ اہل علم کا کہنا ہے ہر بچہ اپنے عقیقے کے بدلے گروی ہے یعنی عقیقہ کرنے تک اس کا نام نہ رکھا جائے اور سر نہ منڈھایا جائے تاکہ کہا جائے یہ فلاں کا عقیقہ ہے اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ !یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے لیے ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔

اور کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت مستحب ہے اور واجب نہیں اور یہی درست ہے کیونکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ   نے حسن سند سے بیان کیا ہے عمرو بن شعیب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے وہ اپنے باپ اور ان کا باپ اپنے دادا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   سے عقیقے کے بار ےمیں پوچھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:"یقیناً اللہ تمھارے عقوق (نافرمانی) کو ناپسند کرتا ہے"تو انھوں نے کہا:اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم آپ سے اس کے بارے نہیں پوچھتے لیکن ہم آپ سے اپنے میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا کوئی بچہ پیدا ہو تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَفْعَلْ ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ"[3]

"جو اپنے بچے سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو کر گزرے بچے سے برابر کی دو بکریاں اور بچی سے ایک بکری۔"

تو عقیقہ مستحب ہوالیکن آپ ملاحظہ کریں کہ عقیقے کے بارے میں آنے والی احادیث کا تعلق اس فرمان سے"الغلام والجارية"(بچہ اور بچی) ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ   کے نزدیک عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    کی حدیث سے ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ"[4]

"بچے سے دو برابر کی بکریاں اور بچی سے ایک بکری ہے۔"

اسی طرح یہ بلوغت سے پہلے کے ساتھ مشروط اور خاص ہے اسی بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان: تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ اس سے ساتویں دن ذبح کیا جائے"یہ وقت مقرر کرنے کے لیے نہیں یہ اختیار کے لیے ہے اور پسندیدہ وقت یہ ہے کہ اسے ساتویں دن ذبح کیا جائے لیکن اگر ساتویں دن کے بعد ذبح کیا جائے تو یہ جائز ہے جب تک بچہ اور بچی بالغ نہ ہوں تو اگر وہ بالغ ہو جائیں تو جسے ان دونوں کے عقیقے کا خطاب کیا گیا ہے وہ ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد ان کے لیے یہ جائز ہو گا کہ اپنی طرف سے عقیقہ کرلیں لیکن یہ پوشیدہ نہیں کہ یہ احادیث بچے اور بچی کے ساتھ خاص ہیں البتہ بڑے کا اپنا عقیقہ کرنا دلیل کا محتاج ہے اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے حوالے سے یہ والی حدیث کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے خود اپنا عقیقہ کیا کمزور حدیث ہے اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔

پملفٹ اور کتابچوں کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے بانٹنا صدقے کی طرح ہی ہے نیز علم ان لوگوں میں عام کرنا جو وہ کتابچے اور پملفٹ خرید ہی نہیں سکتے تو یہ ایک مفید کا م ہے بشرطیکہ اس میں نیت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی ہو۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن عبد المقصود)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (5154)

[2] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث(2837)

[3] ۔ صحیح سنن النسائی داؤد رقم الحدیث(4212)

[4] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث(2837)

ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 710

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ