سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(508) کیا تعداد ازواج کا حکم اب منسوخ ہے؟

  • 19356
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1202

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید میں تعداد ازواج کے متعلق آیت کریمہ ہے۔

﴿فَإِن خِفتُم أَلّا تَعدِلوا فَو‌ٰحِدَةً ... ﴿٣﴾... سورة النساء

"پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے۔"

اور قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَلَن تَستَطيعوا أَن تَعدِلوا بَينَ النِّساءِ وَلَو حَرَصتُم ...﴿١٢٩﴾... سورةالنساء

"اور تم ہر گز طاقت نہیں رکھتے کہ عورتوں کے درمیان برابر کرو خواہ تم حرص بھی کرو۔"

سو پہلی آیت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لیے بیویوں کے درمیان عدل کرنے کی شرط لگائی گئی اور دوسری آیت میں یہ واضح کردیا کہ عدل والی شرط ممکن نہیں ہے۔

کیا پہلی آیت منسوخ ہے؟ اور عدل کی شرط ممکن نہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک عورت سے شادی کرنا جائز ہے ہمیں جواب عنایت فرما کر فائدہ پہنچائیے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ دونوں آیتوں میں تعارض نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آیت دوسری کو منسوخ کرتی ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں جس عدل کا حکم دیا گیا ہے وہ وہ ہے جو انسان کی قدرت میں ہے اور وہ باریوں اور نان و نفقہ میں عدل و انصاف کرنا ہے رہا محبت اور اس کے توابع جماع وغیرہ میں عدل کرنا یہ انسان کی طاقت میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان  "وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ" سے یہی مراد ہے۔

اسی طرح نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   سے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    کے واسطے سے حدیث ثابت ہے کہتی ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرنے میں انصاف کرتے تھے اور فرماتے تھے۔

"اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلا أَمْلِكُ [1]

(رواہ ابوداؤد، والترمذی ،والنسائی،وابن ماجہ، وصححہ ابن حبان والحاکم)

"اے اللہ! یہ وہ تقسیم ہے جس کی میں طاقت رکھتا ہوں پس تو میری گرفت نہ کرنا اس چیز میں جس کی میں طاقت نہیں رکھتا۔"(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔جید سنن ابی داؤد رقم الحدیث(2134)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 450

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ