سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1117) جتنی طاقت ہو برائی کو روکنا چاہیے؟

  • 18724
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 4259

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک مدرسہ میں بطور نرس کام کرتی تھی۔ میں نے اپنے کام میں بعض چیزیں غیر شرعی پائیں تو ان پر انکار کیا، جس کی وجہ سے مجھے کام سے نکال دیا گیا اور پھر مجھے کئی ایک نفسیانی الجھنوں کا شکار بھی ہونا پڑا ہے۔ اور اب میں اپنے بچوں سے کہتی ہوں کہ کسی برائی کا انکار نہ کریں۔ مجھے اس بارے میں کوئی رہنمائی دیں، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ آپ کے ساتھ جو ہوا اور جس نے کیا، بہت غلط کیا ہے۔ اگر آپ نے علم و بصیرت کے ساتھ اس برائی کی نشاندہی کی تھی اور تم پر انکارِ منکر واجب تھا، اور اب جبکہ انہوں نے آپ کو وہاں سے نکال دیا ہے اور اپنے آپ کو آپ سے مستغنی کر لیا ہے، گھبرانا نہیں چاہئے۔ آپ نے بہرحال اپنے رب کو راضی کیا ہے اور اپنا ایک فریضہ ادا کیا ہے۔ امور سب کے سب اللہ کے ہاتھ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’جو تم میں سے کوئی برائی دیکھے، تو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے کہے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان کون النھي عن المنکر من الایمان،حدیث:49سنن ابی داؤد،کتاب الصلاة،باب الخطبة یوم العید،حدیث:1140وسنن الترمذی،کتاب الفتن،باب تغییر المنکر بالید اوباللسان اوبالقلب،حدیث:2172۔)

اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ ...﴿٧١﴾... سورةالتوبة

’’اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں، نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...﴿١١٠﴾... سورة آل عمران

’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘

اگر آپ نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رضا جوئی میں کیا ہے تو ان شاءاللہ اس کا انجام بہت عمدہ ہو گا، اور اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا، اللہ عزوجل آپ کو ان سے بے پروا کر دے گا۔ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، سب بھلائیاں اسی کے پاس ہیں، اور اسی کا فرمان ہے:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ...﴿٣﴾... سورةالطلاق

’’جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا، اللہ اس کے لیے نکلنے کی کوئی راہ بنا دے گا، اور اس جگہ سے رزق عنایت فرمائے گا جس کا اسے کوئی خیال و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘

اور مزید فرمایا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورةالطلاق

’’جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا، اللہ اس کا کام آسان بنا دے گا۔‘‘

ایک صاحب ایمان خاتون کو، خواہ وہ معلمہ ہو یا نرس یا ڈاکٹر یا پرنسپل وغیرہ، تو چاہئے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔ اور سب پر لازم ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے بن جائیں۔ جیسے یہ مردوں پر واجب ہے، عورتوں پر بھی واجب ہے، جیسے کہ اوپر کی آیات و احادیث میں ذکر ہوا ہے۔

اور آپ نے جو اپنے بچوں سے یہ کہا ہے کہ تم کسی کو اس کی برائی سے نہ روکو، یہ آپ کی غلطی ہے۔ اللہ سے ڈریں، اس سے توبہ کریں اور انہیں اسی بات کی تلقین کریں جو اللہ نے ان پر واجب اور لازم ٹھہرائی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 782

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ